تحریر : ساحل منیر قبائلی علاقہ جات کے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے وفاقی کابینہ نے بالآخرفاٹا اصلاحات کی منظوری دے دی۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت فاٹا اصلاحات کے لئے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی کی تجاویزکافی عرصہ سے قبولیت پذیری کی منتظر تھیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی واضح پیش رفت سامنے نہیں آرہی تھی۔گو کہ اس حوالے سے فاٹا قبائل کی واضح اکثریت اصلاحاتی عمل میں حکومت کی ہمنوا نظر آئی لیکن حکومت کے ایک اہم اتحادی مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی نے ان اصلاحات کی منظوری پر مخالفانہ رویے کا اظہار کیاہے۔مولانا صاحب اس حکومتی فیصلہ پر سیخ پا ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فاٹا اصلاحات پر حکومت نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے اور یہ فیصلہ بد نیتی پر مبنی ہے۔سینیٹر حافظ حمداللہ نے بھی اسی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہیں اور جلد ہی مشاورتی اجلاس طلب کر کے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن کا یہ فرمان سمجھ سے بالا تر ہے کہ فاٹا اصلاحات میں ان کے ساتھ نواز شریف حکومت نے دھوکا دہی کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ نہ تو مولانا صاحب یا ان کی جماعت کو لاعلم رکھ کر کیا ہے اور نہ ہی دیگر سیاسی حلقوں کو۔کیونکہ اس سلسلہ میں گزشتہ سولہ ماہ سے پیش رفت جاری تھی اور قبائلی عوام کی غالب ترین اکثریت ان اصلاحات کے حق میں تھی۔ویسے مولانا فضل الرحمن کی خفگی پر بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کی فاٹا اصلاحات کی مخالفت دراصل فاٹا کو خیبر پختونخواہ کا حصہ بننے سے روکنا ہے کیونکہ اس طرح قبائلی علاقوں میںجے یو آئی کے موجودہ ووٹ بینک پر اثر پڑے گااور اس انضمام کے نتیجے میں اس کی سیاسی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔غالباً انہی خدشات کی بنا پر مولانا صاحب حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سمیت جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود فاٹا کے قبائلی عمائدین و سول سوسائٹی نے حکومتی فیصلے کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے۔
یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ پسماندہ طبقوں کے حقوق کی بحالی کے اس تاریخی اقدام کو موجودہ حکومت کے سخت ترین سیاسی مخالفین و ناقدین نے بھی سراہا ہے اور فاٹا اصلاحات کے تحت ایف سی آرکے خاتمے و فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں انضمام کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ملک کی موجودہ صورتحال میں سیاسی مخالفین کا یہ حوصلہ افزاء طرزِ عمل بہر طور باعثِ مسرت ہے۔واضح رہے کہ ان اصلاحات کے مطابق فاٹا کو بتدریج پانچ سال تک خیبر پختونخواہ میں ضم کر دیا جائے گااور اس دوران ایک آئینی ترمیم کے ذریعے 2018ء کے عام انتخابات میں فاٹا کے عوام کو خیبر پختونخواہ اسمبلی کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دے دیا جائے گا۔قبائلی علاقہ جات میں ایف سی آرکی تنسیخ کے بعد نیا رواج ایکٹ نافذ ہو جائے گا جبکہ دیوانی اور فوجداری نظام میں جرگہ سسٹم کے طریقہ کار میں تبدیلیاں کرتے ہوئے اسے جیوری نظام سے مماثل کیا جائے گا۔
اصلاحاتی کمیٹی کی تجاویز و سفارشات میں فاٹا کے اندر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بنچوں کا قیام بھی شامل ہے۔ان سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں تعینات فوج کے انخلاء کے لئے لیویز میں بیس ہزار مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے گا۔فاٹا کے لئے اضافی ترقیاتی بجٹ اور اس کو سی پیک کے ساتھ منسلک کرنے کے خوش آئین اقدامات بھی فاٹا اصلاحات کا حصہ ہیں۔ان محروم و پسماندہ علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے اور ان کی ترقی و خوشحالی کے لئے یہ اصلاحاتی پیکج یقینناً قابلِ ستائش ہے۔اس لئے ان اصلاحات کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لئے سیاسی حلقوں کو مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی ترک کرکے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔حکومت اگر نیک نیتی کے ساتھ قبائلی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کی خواہاں ہے تو اس بابت تعاون و حوصلہ افزائی کے ردِ عمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے ناکہ کوتاہ فہمی و حوصلہ شکنی کا۔اس اہم موقع پر وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نوازشریف نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ فاٹا کی ترقی پورے ملک اور قوم کی ذمہ داری ہے اور تمام صوبوں کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔