تحریر : مقصود انجم کمبوہ ایک وہ دور تھا جب جاپان کی ہر چیز زمین بوس ہوچکی تھی دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی عظیم تباہی نے جاپان کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا قوم دکھوں سے چُور تھی ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر نظر آرہے تھے کوئی سڑک اور مکان رہائش کے قابل نہیں تھا صنعتی ادارے اور فوجی مراکز کھنڈر ات بن چکے تھے معشیت کا جنازہ نکل چکا تھا ملک و قوم غیروں کے غلام بن چکے تھے ہر طرف مایوسیوں کے ڈیرے تھے بے روز گاری نے جاپانیوں کو موت کے منہ ڈال دیا تھا بجلی تھی نہ پانی تھا بد حالی کے سیاہ بادل منڈ لا رہے تھے لیڈر بھی خال خال نظر آرہے تھے ایک ادارہ بھی ایسا نہیں تھا جو ملک و قوم کی خدمت کے فرائض انجام دے سکے ہنر مند ، انجینئر زاور اعلیٰ عہدیدار جنگ کا ایندھن بن چکے تھے مرجھائے ہوئے چہروں نے جاپان کو دھند لا کے رکھ دیا تھا کاوا ساکی اور ہیرو شیما پر بر سائے جانے والے ایٹم بموں نے قوم کے حوصلے پست کر دئیے تھے امریکہ نے امن کے نام پر لاکھوں نہتے جاپانیوں کو جلا کر راکھ کر دیا تھا دوسری عالمی جنگ جاپانی ہار چکے تھے ہاری ہوئی قوم نے ہار نہ مانی حوصلے جوان کر نے کی ٹھان لی لیڈر شپ نے جاپان کو دوبارہ پائوں پر کھڑا کرنا شروع کردیا ملک کی اقتصادی بحالی اور سفارتی کامیابیوں میں قابل قدر اضافہ کیا (کم از کم بین الاقوامی معیارات کے اعتبار سے ) داخلی و سیاسی استحکام پیدا کیا ایک مختصر مدت کی سوشلسٹ حکومت (1947-48)کے عہد کے سواقدامت پسندوں نے جنہیں کسی زمانے میں لبرل پارٹی اور پھر لبرل ڈیمو کرٹیک پارٹی کہا جاتا ہے پارلیمنٹ میں اکثریت کو بر قرار رکھا وزیر اعظم یو شیڈ اشگیر و نے جو ایک لبرل رہنما تھے۔
چالیس اور پچاس کی دھائیوں کے مشکل وقت میں جاپانی قوم کی قیادت کر تے رہے جنگ کے بعد جاپان کو سیاسی استحکام بخشنے میں اہم رول ادا کیا ایک ایسے پارلیمانی طرز حکومت میں جہاں حکومت کی سربراہی اکثریتی جماعت کے ہاتھوں میں ہو آنے لگا موجودہ جاپان ایک مثالی اور منفرد جمہوریت کا نمونہ فراہم کرتا نظر آرہا ہے 1960کی دہائی میں جاپان کو داخلی اور خارجی طور پر کچھ نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا زندگی کی بنیادی ضروریات سے مستفیض ہوجانے کی صورت میں عوام نے اپنے لئے کچھ اور حدودپر پرواز ڈھونڈ نکالے مثلاً اب معیارزندگی کو بلند تر کرنے کا خیال دامن گیر رہنے لگا بلکہ زندگی میں کیف کے اضافے کی صورتیں پیداکی جانے لگیں انسداد آلودگی نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبدول کرائی طالب علموں نے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی صورت حال پر اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا بہت سے ایسے گروہ وجود میں آگئے جنہوں نے سماجی اقدار میں روز افزوں اضافے کے ساتھ ان میں تنوع بھی پیدا ہو ایہ تنوع جاپان کی سیاسی زندگی میں بھی ظاہر ہوا پھر ڈیمو کریٹس کے علاوہ سوشلسٹ اور کیمو نسٹ بھی میدان میں اُتر آئے خارجی طور پر ضرورت محسوس ہونے لگی کہ جاپان اہم اور تعمیری رول ادا کرے سیاسی میدان میں اوکی ناوا 1972ء میں جاپان کے حوالے کر دیا گیا۔ اس پر دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ قابض چلا آرہا تھا ادھر اس سال جاپان کے عوامی جموریہ چین سے روابط میں خوشگواری پیدا ہوئی یہ دونوں واقعات بین الاقوامی طور پر بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں جاپان کی نئی حیثیت کا تعین کرتے تھے۔
اقتصادی میدان میں جاپان نے کچھ ایسے اقدامات کئے کہ بین الاقوامی بازار میں اسکی ساکھ میں اضافہ ہوا ۔او ای ڈی سی کا اہم رکن ہونے کی حیثیت سے جاپان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوئی تھی کہ وہ تجارت ، اقتصادیات ، مالیات اور تکنیکی امداد کے میدانوں میں اپنا اہم کردار ادا کرے اسی ذمہ داری کو جاپان نے بحسن و خوبی انجام دیا 1975ء میں جاپان سات قوموں کی اقتصادی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرتا رہا اس ادارے کے اجلاس سالانہ ہوتے ہیں اپنے داخلی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اور قومی تشخص کو ضائع کیے بغیر جاپان سماجی اجتہاد کی راہ سے گذرا اوسط عمر کے اعتبار سے دنیا بھر میں ممتاز ہونے کے باعث توقع ہوئی کہ اگلے دس سالوں میں جاپان ایک ایسا ملک ہوگا جس میں دنیا کے معمر ترین انسان پائے جاتے ہوں خیال رہے کہ جاپان میں مردوں کے لئے متوقع اوسط عمر 54تا 74اور عورتوں کے لئے 18تا 80سال ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے باعث توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل میں جاپان دنیا کی اقتصادی رجحانات پر غیر معمولی اثر ڈالے گا اور پھر آج کا جاپان اس حقیقت کو آشکار کرتا نظر آرہا ہے یہ وہی تباہ حال جاپان دنیا کی بڑی اقتصادی قوت ہے جس کو دوسری عالمی جنگ میں تباہی و بربادی سے دو چار ہونا پڑا تھا۔
ہمارا ملک ایسا تو نہیں جو ایسی صورتحال سے دو چار ہو ا ہو تو پھر ہم اتنے پیچھے کیوں نظر آرہے ہیں ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہئیے کہ کیا پاکستانی قوم میں کونسی کمی اور کوتاہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود تنزلی کا شکار ہے کیا ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے مکارو عیار لیڈروں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ہم عقل و دانش سے عاری بھی نہیں تو پھر ایسی گھمبیر صورتحال سے دوچار کیوں ہورہے ہیں یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے آخر کب تک ہم ایسے لیڈروں کی ٹوکری کے نیچے مرغیاں بن کر چہچہاتے رہیں گے؟ خدارا تبدیلی آئی نہیں لانے کی جستجو تو کر کے دیکھو لیڈروں نے ہمیں اپنی مکاریوں سے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری سوچنے کی صلاحیتیںسلب ہو چکی ہیں ہم صرف ایک آنکھ سے دیکھ رہے ہیں دوسری آنکھ بند پڑی ہے جاگو تم عظیم قوم ہو تم بدھ مت جاپانی نہیں ہو تم اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی محمدۖ کے امتی ہو جنہوں نے ظلم کے اندھیروں میں اُجالا کیا اور اسلامی انقلاب برپا کیا اُٹھو میرے ہم وطنوں وقت آگیا ہے کہ ہم بھی ترقی کریں یورپ کو پچھاڑ کے رکھ دیں۔