تحریر : فضل خالق خان ملاکنڈ ڈویژن کے اہم علاقے سوات میں ایک بار پھر تحصیل انتظامیہ کی جانب سے ٹیکس لگانے کی مہم جوئی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ،تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 26 فروری کو تحصیل انتظامیہ کی جانب سے ایک صوبائی اخبار میں اشتہار دیا گیا جس میں ضلع سوات میں کچھ ضروری اشیاء پر ٹیکس لگانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ ہم عوام ابھی اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پارہے تھے اور گومگو کی کیفیت میں تھے کہ اگلے روز یعنی 27فروری کو سوات کے ایک مقامی اخبار کو بھی اس اشتہار کو چھاپنے کی سعادت سے نواز ا گیا اور یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ امر ناگزیر ہے اور اس پر جلد عمل درآمد کے لئے عوام تیاری شروع کردیں۔ اشتہار شائع کرنے والوں کی جانب سے عوام کو پوری طرح یقین دہانی اور ذہنی تیاری کے لئے شائد ابھی مزید وضاحت کی ضروری پیش آرہی تھی جبھی تو انہوں نے 2 مارچ کو ایک بار پھر صوبے کے ایک بڑے اخبار میں سہ بارہ اشتہار شائع کراکے پوری طرح عوام کو باخبر کردیا کہ معاملہ کو” ایویں” نہ سمجھیں بلکہ تحصیل انتطامیہ پوری تیار ی کے ساتھ ٹیکس کے نفاذ کے لئے سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں اب کسی قسم کی رعایت کی توقع نہ رکھی جائے۔ بات کرتے کرتے تمہید ذرا لمبی ہوجائے گی لیکن کیا کریں کہ عوام کی غم میں ہم بھی گھلے جارہے ہیں۔ کہ ہم بھی اس دھرتی کے بیٹے ہیں جب بھی یہاں کوئی افتاد پڑتی ہے پہلا وار ہمارے ہی دل پر چوٹ کی مانند پڑتا ہے۔
کسی کو یاد ہو یا نہ یاد ہو لیکن ہم اس موقع پر یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد اس سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ اس پر عوام نے یک زباں ہوکر ڈویژن بھر کی دور ودیوار کو لرزا دیا تھا اور اس احتجاج ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کوآخر کار اپنا یہ غیر منصفانہ فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی خوش نصیبی کہئے کہ سوات میں ٹریڈرز فیڈریشن کے صدرعبد الرحیم کی صورت میں ایک ایسی شخصیت موجود ہے جو کسی بھی وقت ڈویژن کے عوام کی مفاد میںاُٹھائے جانے والے کسی بھی غیر قانونی اقدام کو روکنے کے لئے کسی بات کی پروا کئے بغیر میدان میں موجود رہتے ہیں۔ پھر ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ڈویژن کے دیگر اضلاع کی تاجر برادری سمیت عوامی حلقے بھی ان کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے ایسے غیر منصفانہ فیصلوں کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں جس کا لامحالہ فائدہ عوام ہی کو پہنچتا ہے اور ثمر کے طورپر ان کو ایسے غیر منصفانہ فیصلوں کی آڑ میں ٹیکس جیسے انتہائی اقدام سے ابھی تک پچایا جارہا ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس سے قبل کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا جو بہ ظاہر تو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس لاگو کرنا تھا لیکن اس کی آڑ میں ہر اس چیز پر ٹیکس لگانے کی تیاری کی گئی تھی جوبراہ راست غریب عوام کے زیر استعمال ہوتی تھیں۔ بھلا ہو سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبد الرحیم کا کہ انہوں نے بروقت اس بات کا ادراک کیا کہ کسٹم ایکٹ کی آڑ میں سواتی عوام کوتختہ مشق بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور پھر انہوں نے میدان میں نکل کر وہ تاریخی احتجاج کیا جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو اپنا غیر منصفانہ فیصلہ واپس لینا پڑا ۔ اب ایک بار پھر سوات کی تحصیل انتظامیہ اس ٹیکسوں کے نفاذ کی ظالمانہ مہم جوئی کا حصہ بننے کی کوشش کررہی ہے اور بہ ظاہر یہ بتایاجارہا ہے کہ اس سے ٹی ایم اے مینگورہ کیلئے آمدنی کے ذرائع پیدا کئے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ عوام پر ٹیکس اس وقت لگائے جاتے ہیں جب حکومت اپنے فرائض منصبی کو پور ا کرتے ہوئے وہ سہولتیں جو عوام کی زندگی کو سہل بنانے کے لئے ضروری ہوں فراہم کردیتی ہے۔ عوام اس حد تک معاشی طورپر آسودہ ہوں کہ ان کے پاس ٹیکس دینے کے لئے اپنے اخراجات سے ہٹ کر اتنی اضافی رقم پلے میں موجود ہو جسے وہ بہ خوشی ٹیکس ادائیگی کے بعد بھی کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں ۔ ایسے میں یقینی طورپر حکومت کا حق بنتا ہے کہ وہ عوام پر مزید سہولتوں کی فراہمی کے لئے ٹیکس نافذ کردیں لیکن یہاں تو سوال یہ ہے کہ سوات کی عوام جو گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اول تو بدترین دہشت گردی کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے گھر بار اور کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ا س سے سنبھلے نہیں تھے کہ ان حالات کو درست کرنے کیلئے فوجی اپریشن کا سامنا کرنا پڑا ، اس دوران پے درپے خطرناک زلزلوں نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ان زلزلوں کی نتیجے میں سوات سمیت ڈویژن بھر کا پور انفراسٹرکچر ایسا تباہ ہوا جس کی بحالی میں ابھی مزید کئی سال لگنے ہیں۔
زلزلوں سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ سال 2010ء کے دوران ملکی تاریخ کے تباہ کن سیلاب نے سوات بہ شمول ڈویژن بھر کی لوگوںکو ایک اور امتحان میں ڈال دیاجس میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ شائد اگلے دو دہائیوں میں ممکن ہوسکے۔ متذکرہ آفات سماوی و ارضی کے نتیجے میں سوات کا ہر فرد معاشی طورپر دیوالیہ پن کو چھو رہا ہے ۔ چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے تو ایک طرف جو بڑے کاروباری لوگ ہیں ان کو بھی اپنے بال بچوں کے لئے تین وقت کا کھانا فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے جبکہ چھوٹے کاروباری حلقوںکا تواللہ ہی حافظ ہے ۔ ایسے میں تحصیل انتظامیہ سوات کی جانب سے حالیہ ٹیکس کے نفاذ کے اقدام کو بس ظلم ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ہم مانتے ہیں کہ شہر کے معاملات کو چلانے کیلئے آپ کو مالی مشکلات درپیش ہوں گی لیکن اس کے لئے پہلے سے مہنگائی اور دیگر گوناگوں مسائل میں جھکڑی عوام کو تختہ مشق بنانا قرین انصاف نہیں۔ اس لئے ہونا تو یہ چاہئے کہ صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت تعائون کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی لاکر ان ضروریا ت کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پہلے سے مری ہوئی عوام کی ہڈیوں کا چورن بنا کر اسے بھی ڈکار لیا جائے۔سوات ایک سیاحتی زون ہے یہاں کی سیاحتی علاقوںکو ترقی دے کر وہاں کی سڑکوںکو تعمیر کرکے مقامی لوگوںکو روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں جب لوگو اپنے پائوں پر کھڑے ہوں اور آپ دیکھ لیں کہ فالتوپیسہ عوام کے پاس آگیا ہے تو پھر بے شک ٹیکس لگائیں۔لیکن اگر اس سے قبل ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی توہم انہی سطور کے ذریعے واضح کردیتے ہیں کہ عوام ایک بار پھر اپنا حق لینے کیلئے اُٹھیں گے ۔ مینگورہ شہر پھر احتجاجوں کا مرکز بن جائے گا اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ فیصلے کاو ہ حشر نہیں ہوجاتا جو حشر اس سے قبل مرکزی فیصلے کا کیا گیا تھا ۔ بہتر یہ ہے کہ تحصیل انتظامیہ سوات ہوش کے ناخ لے کر اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالے۔