تحریر : سید انور محمود جنوری 2017 میں پارا چنار میں اور فروری کے پورئے ماہ میں ملک کے چاروں صوبوں میں مسلسل دہشتگردی ہوتی رہی، دوسری طرف یو ائے ای میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دوسرئے ایڈیشن کے میچ ہورہے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بار پی ایس ایل کا فائنل 5 مارچ 2017 کو لاہور میں کرانے کا اعلان کر رکھا تھا۔13 فروری کو لاہور میں ایک بڑی دہشتگردی ہوئی ، اس دہشتگردی کے بعد اسی رات پی ایس ایل کے سربراہ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ فائنل لاہور میں ہی ہوگا، ساتھ ہی انہوں نےپوری پاکستانی قوم سےایک سوال کیا تھا کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہورمیں ہونا چاہیے یا نہیں، پوری پاکستانی قوم اس بات پر متفق تھی کہ فائنل لاہور میں کرایا جائے۔ جمرات 16 فروری 2017 کی شام کو صوبہ سندھ کے شہر سہون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ایک بڑا خودکش حملہ ہوا جس کے بعد اگر پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت پنجاب فائنل لاہور میں کرانے سے انکار کرتے تو عوام خاموش ہوجاتے۔لیکن پاکستان کے عوام اتنی زیادہ دہشتگردی کے باوجود یہ خواہش ضرور رکھتے تھے کہ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرواکریہ پیغام دیا جائے کہ پاکستانی قوم دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے آگے بلکل نہیں جھکے گی۔
پاکستان کے عوام کے جذبات کو سمجھتے ہوئے آخر کار27 فروری کو حکومت پنجاب نے پی ایس ایل کے فائنل کو لاہور میں کرانے کی منظوری دی۔ حکومت پنجاب کے اعلان کے فوراً بعدہی پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، 1992 کے ورلڈ کپ کے فاتح اور اب پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے لاہورمیں 5 مارچ کو پی ایس ایل کے فائنل کرانے کےحکومتی فیصلے پراپنی شریف برادران سےمخالفت برائے مخالفت جاری رکھی اور حکومت کے اس اعلان کو پاگل پن قرار دیا، عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ’’اگر کوئی دھماکہ ہوگیا تو انٹرنیشنل کرکٹ کے پاکستان واپس آنے کے بجائے کرکٹ اگلے دس سال تک واپس نہیں آئے گی‘‘۔ دوسری جانب پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ’’پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی ہونا چاہیے اور اسی صورت میں دہشتگردوں کو موثر جواب دیا جاسکتا ہے۔اگر ہم پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں نہیں کراتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دہشتگروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں‘‘۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ عمران خان سے زیادہ پرویز مشرف نواز شریف کو پسند نہیں کرتے، لیکن یہاں ملک کی بات تھی نواز شریف یا شہباز شریف کی نہیں۔عمران خان کے پاگل پن کے فتوئے کے باوجود حکومت نے 5 مارچ کو لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل بڑی کامیابی سے کرالیا۔
کیا عمران خان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ماضی، حال اور مستقبل کی سیاست کا صیح طور پر تجزیہ کرلیں، ہم سب کو یاد ہے کہ عمران خان نے جب 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد میں رہنے والوں کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی لیکن 126 دن کے دھرنے کے باوجود عمران خان کچھ حاصل نہ کرپائے، اسی درمیان میں 30 نومبر 2014 تک کوئی کامیابی نہ ہونے کے بعد انہوں نے اعلان فرمایا تھا کہ اب وہ دوسرئے شہروں کو بھی بند کرینگے، انہوں نے کہا تھا کہ 4 دسمبر کو لاہور، 8 کو کراچی، 12 کواسلام آباد اور 16 کو سارا پاکستان بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سال 2016 میں وہ 2 نومبر کو پاناما لیکس کو بنیاد بناکر اسلام آباد کو لاک ڈاون کرنا چاہتے تھے ، پورا پاکستان پریشان تھا کہ یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے ایکشن کے باعث وہ اسلام آباد کو بند نہ کرسکےاور اب جب دہشتگردوں کو جواب دینے کا وقت آیا توکہہ رہے تھے کہ لاہور بند کرکے میچ کروانا پاگل پن ہے، اس سے شہریوں کی زندگیاں متاثر ہونگیں۔عمران خان کا یہ بیان بھی ایسا ہی ناکام ثابت ہوا جیسے دھرنے کے دوران انہوں نے سول نافرنی کا بیان دیا تھا اور کسی نے ان کے بیان پر کان نہیں دھرا تھا۔ ان کے اس بیان کو عام پاکستانیوں نے پسند نہیں کیا، جسکا ثبوت ٹکٹ کے حصول کےلیے صرف لاہور کے شہری نہیں بلکہ دوسرئے شہروں کے لوگ بھی بنکوں کے باہر کھڑئے ہوئے نظر آئے۔
ویسے تو آصف زرداری نے بھی پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانے کی مخالفت کی تھی لیکن عمران خان کے کہنے کا زیادہ اثر اس لیے پڑا کیوں کہ وہ خود دنیائے کرکٹ کے ایک سپراسٹار رہ چکے ہیں، ایک خبر کے مطابق کوئٹہ گلیڈئیٹرز سے تعلق رکھنے والے برطانوی کرکٹرکیون پیٹرسن نے پاکستان آکر فائنل کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ’’وہ کیسے لاہور آ کر کھیل سکتے ہیں جب عمران خان تک نے یہ کہہ دیا ہےکہ ایسا کرنا پاگل پن ہو گا‘‘۔ اب جبکہ 5 مارچ کو لاہور میں خیریت سے پی ایس ایل کا فائنل ہوچکا ہے تو عمران خان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا، کیا نواز شریف یا شہباز شریف ہر ٹکٹ کے ساتھ ایک لیپ ٹاپ دئے رہے تھے، نہیں قطعی نہیں،بلکہ قذافی اسٹیڈیم میں داخل ہونے والا ہر شخص دہشتگردوں کو صرف ایک پیغام دینے آیا تھا کہ وہ دہشتگردوں سے قطعی خوفزدہ نہیں۔عمران خان چاہیں تو اپنی جماعت کے کارکنوں سے معلوم کرلیں کہ کیاان کا یہ بیان درست تھا۔
پی ایس ایل کے سربراہ نجم سیٹھی نےسابق کپتان کی حیثیت سے عمران خان کو میچ دیکھنے کی دعوت دی تھی مگر افسوس انہوں نے معذرت کرلی اس کے برعکس بغیر کسی دعوت نامے کےان کے ہر وقت کے سیاسی ساتھی شیخ رشید اور سیاسی اتحادی سراج الحق اسٹیڈیم میں موجود تھے اور دونوں کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پاکستان کےلیے آئے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ ان کی مخالفت نواز شریف سے ہےقوم سے نہیں،پی ایس ایل کا فائنل قوم کی خاطر دیکھنے آیا ہوں۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ’’ لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کرانے کا فیصلہ درست ہے، یہ پاکستان کے وقار کا مسئلہ ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آصف زرداری کے منع کرنے کے باوجود میچ دیکھنے آیا ہوں۔ قذافی اسٹیڈیم آنے والوں میں ریحام خان بھی شامل تھیں جن کا کہنا تھا کہ لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل پر انہیں بہت اچھا لگ رہا ہے، دہشت گردی کو شکست دینی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ ڈرائیں ، دھمکائیں اور ہم گھروں میں بند ہو جائیں۔ عمران خان مانیں یا مانیں وہ لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد کی مخالفت کرکے اور قذافی اسٹیڈئم نہ جاکر بدترین سیاسی غلطی کرگئے ہیں جس کا نتیجہ جلدہی ان کے سامنے ہوگا۔
میں نے کہیں پڑھا تھا:۔ ایک استاد نے بورڈ پر نو کا پہاڑا لکھا اورپہلی لائن میں ہی غلطی کی اور9 ضرب 1 برابر 7 لکھا، لیکن اس کے بعد استاد نے کوئی غلطی نہیں کی۔ لکھنے کے بعد بچوں کو دیکھا تو بچے خوب ہنس رہے تھے، کیونکہ پہلی لائن ہی غلط تھی۔ استاد نے بچوں کو کو خاموش ہونے کو کہا اور بچوں سے کہا کہ’’ جس پہلی لائن کی غلطی پر آپ سب ہنس رہے ہیں وہ غلطی میں نے جان بوجھ کر کی ہے، کیونکہ اس طرح میں آپکو اس کے زریعہ ایک بہت اہم اور تجربہ کی بات کی بات بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی آپ مجھ پر جو ہنس رہے تھے دنیا بھی آپکے ساتھ ایسا ہی سلوک کرئے گی۔ آپ نے میرئے نو بار صیح لکھے ہوئے کو تو نظرانداز کردیا مگرمیری ایک غلطی پکڑلی اور اس پر ہنس رہے ہو اور میرا مذاق بنارہے ہو‘‘۔ یاد رکھنا دنیا بھی تماری تماری نو خوبیوں کو چھوڑ کر اس ایک غلطی پر نظر رکھے گی اور اسی کا مذاق بنا بنا کرتمہارا جینا حرام کرئے گی۔