محرومیاں ناانصافیاں ہی بغاوت کو جنم دیتی ہیں

Protesting Injustices

Protesting Injustices

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
انگریزوں سے آزادی کے بعد دنیا بھر میں نو آبادیاتی ریاستوں نے اولا ترجیع اپنے دفاع کو ہی دی خصوصا اپنے سرحدی دفاع کو اس قدر مضبوط کیا کہ کیا مجال اپنی ایک انچ زمین بھی کھونے پائے مگر بدقسمتی سے ہمارا پاکستان وہ بدقسمت ریاست ہے کہ جس نے صرف دو عشروں بعد ہی ملک کا ایک بہت بڑا حصہ گنوا دیا ۔ جس کے محرکات سیاسی بھی تھے اور دفاعی بھی۔ دنیا بھر میں ایسی مثال بہت کم ملتی ہیں۔ ہاں مسلمان ریاستوں میں انڈونیشیا نے اپنا بالی صوبہ گنوایا۔ اور سوڈان نے اپنا تیمور گنوا دیا۔ مگر وہاں وہ دونوں مسیحی برادریوں کے اکثریتی صوبے تھے جنہیں اپنی اقوام کے سر پرستوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی جبکہ اس کے بر عکس ہمارے مشرقی پاکستان کی کلیتا آبادی ہمارے مسلمان بھائیوں کی تھی۔ جنہوں نے بڑی خوشی اور قربانی سے متحدہ پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ دیا تھا۔ اور شمولیت اختیار کی تھی مگر ہم انہیں زیادہ دیر تک اپنے ساتھ نہ رکھ سکے نہ چلا سکے اور انہیں بھی ہمارے ازلی دشمن انڈیا کی سرپرستی مل گئی اور وہ ہم سے علیحدہ ہو کر الگ ریاست بنا بیٹھے۔ قارئین یہاں ہمارے دشمنوں کی سازشیں کم اور ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں سیاستدانوں کی کارستانیاں زیادہ کارفرما نظر آتی ہیں۔

ریاست کے ایک بڑے حصے کے لوگوں سے نہ ہم انصاف کر سکے اور نہ ہی انکی محرومیوں کا ازالہ کر سکے ہمارے حکمرانوں کی نظر کرم صرف یہاں کے حصے پر ہی مرکوز رہیں او ر سب سے بڑے آبادی والے اس حصے کے عوام کو نظر انداز کرتے رہے بلکہ اس عظیم زرعی حصے سے بدیانتی کے مرتکب بھی ہوتے رہے۔ فوج میںسیاست میں حکومت میں اور تعمیر و ترقی میں انکا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ تب پھر چڑیاں چگ گئی کھیت ہم ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔ جب کہیں ملک کے کسی حصے سے زیادتیاں محرومیاں ناانصافیاں بڑھنے لگیں تب وہاں بغاوت اور نفرت کے بیج بونے لگتے ہیں۔ اور پھر اسی طرح کی انہونیاں ہونے لگتی ہیں۔ مگر اتنے بڑے سانحے کے بعد نصف صدی کے گزرنے کے بعد بھی ہم نے سبق نہ سیکھا اور آج بھی ہمارا دوسرے صوبوں حصوں سے وہی برتائو جاری ہے۔

بلوچستان کے اکثریتی علاقے آج بھی محرومیوں ناانصافیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہاں کے عوام کو ہم نے دانستہ تعلیم اور تعمیر و ترقی سے محروم رکھا۔ چند سردار وں کی پرورش کرتے رہے اور ان کے ذریعے انہیں قابو اور کنٹرول کرتے رہے۔ وہ سردار اپنا اور اپنے پالتو بدمعاشوں کو پالتے رہے۔ اس طرح عام آدمی محرومیت کا شکار ہوتا رہا۔ اور ہتھیار اٹھاتا رہا۔ اپنی آبادیوں کو سرداروں کے قبضے میں دیکر پہاڑوں کو آباد کرتا رہا۔ جسے کنٹرول کرنے کے لئے ایوب خان کا اپریشن پھر بھٹو کا اپریشن پھر ضیاء کا اپریشن پھر مشرف کا اپریشن اب ضرب عضب اور روالفساد سب ایک ہی طرح کی کاروائیاں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ اپریشن صوبہ بلوچستان کو کنٹرول کرنے کا حصہ تھے اور موجودہ فاٹا کے غیر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ ایسے میں ہمارے اور ہمارے پاکستان کے دشمنوں کو موقع ملنا فطری ہے۔ جو وہ کبھی بھی گنوانا ضائع کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ قارئین ہماری کتنی بڑی بے حسی بدبختی ہے کہ فاٹا ایک بہت بڑے حصے اور عوام کو پون صدی گزرنے کے باوجود انہیں قومی دھارے میں نہ لا سکے۔

ملک کا حصہ نہ بنا سکے۔وہاں کے باسیوں کو غیر اور علاقے کو آج بھی غیر علاقہ بنائے رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں چند پالتو پولیٹکل ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول رکھتے رہے۔ ناانصافیوں محرومیوں زیادتیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ وہ قبائلی جنہوں نے 1947ء کشمیر جنگ میں 1965,ء 1971ء کی پاکستانی جنگ میں ہمارا بھر پور ساتھ دیا۔ قربانیاں دیں مگر ہم انہیں غیر ہی سمجھتے رہے۔ سڑکیں نہ سکول کالج ہسپتال نہ زچہ بچہ سنٹر ، وہاں کے سونا اگلتے پہاڑوں کو بے حصی سرزمین سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا۔ تب انکی نفرت بغاوت میں بدلنے لگی اور ہماری ازلی دشمن بھی انکی سرپرستی میں محبت میں کود پڑے ہیں اور پھر ہماری چند سیاسی جماعتیں ایک ایک صوبہ لیکر آبیٹھیں ہمارے حکمران اپریشن دراپریشن اور سرداروں چوہدریوں کو ہی ان تمام فتنوں کا واحد حل سمجھ کر اسلام آباد کے ایوانوں میں چین کی نیند اور آرام فرما رہے ہیں۔ سندھ کے مالکوں نے عام سندھیوں کے لئے کچھ نہ کیا وہ بھٹو کے نام پر سیاست اور حکومت کا کام جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے بھٹو تو زندہ ہیں مگر سندھ کے عوام سانس کی آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔ سندھی آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ روٹی پانی میسر نہیں ایک طرف محلات بڑھ رہے ہیں۔ تو دوسری طرف جھونپڑیوں کی دنیا آباد ہے۔

تھر کی مائوں کی گودیں اجڑ رہی ہیں ۔ کے پی کے والوں کو دھرنوں سے فرصت نہیں وہاں آج بھی ہندوستان کے خیر خواہ بیٹھے ہیں کالا باغ ڈیم بننے نہ دیا۔ سی پیک کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ وہاں کے عوام جہاں تھے وہاں کھڑے ہیں۔ انقلاب آیا نہ نیا پاکستان بنا وہاں تبدیلی تو نہ آئی البتہ ان کے ٹھیکیداروں کی زندگیوں میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ ایوان خالی ہیں سڑکیں آباد ہیں۔ پانامہ کے اوپر عدالتوں میں انکے ڈیرے ہیں۔ ن لیگی حکمران ملک کا دفاع نہیں۔ اپنے دفاع میں لگے ہیں۔ خود کشوں نے اب پنجاب میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ عوام کی اب جان محفوظ ہے نہ مال۔ قانون سازی ہے نہ اس پر عملدرآمد فوج کو گلی کوچوں میں پھنسا رکھا ہے۔ سرحدوں پر شب وخون جاری ہے۔ اب ایسے میں صوبوں کی محرومیوں ناانصافیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔

چپہ چپہ پاکستانی سرزمین کی حفاظت کیسے ممکن ہے۔ بغاوتوں نفرتوں پر کنٹرول کیسے ممکن ہے۔ قارئین اس کا حل نہ فوجی اپریشن ہیں نہ ہی سرداروں چوہدریوں کی سرپرستی تمام صوبوں کے عوام کی محرومیوں زیادتیوں کا ازالہ صرف ہے۔ قریہ قریہ انہیں بنیادی تعلیمی تعمیری اور صحت کی سہولیات بہم پہنچانی ہیں۔ وسیع ترین علاقوں اور گنجان آباد علاقوں میں مزید صوبے اور یونٹ بنانے ہونگے۔ شمالی جنوبی وزیرستان کرم ایجنسی باجوڑ اور مہمند ایجنسی اورکزئی ایجنسی کے وسیع ترین علاقے فاٹا کو الگ صوبہ بنا کر اسے قومی دھارے میں شامل کرنا ہو گا۔ وہاں موجود ہ کرائے کے نمائندوں کے بجائے انکے اپنے مقامی نمائندوں کے ذریعے وہاں تعمیر وترقی کا انقلاب لانا ہو گا۔ یاد رکھیں کسی ملک ریاست یا صوبے کا معاشی انقلاب ہی اسے فتنوں فسادوں سے بچا سکتا ہے۔ بلوچستان کی محرومیوں ناانصافیوں کا ازالہ کرنا اور سرداروں سے ان کی جان چھڑانی ہو گی۔ مقامی قدرتی اور معدنی دولت سے تیز تر استفادہ حاصل کرکے انکا برابر کا حصہ دینا ہو گا۔

جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ بھی پتھر کے زمانے میں رہنے والے محروم طبقات کو نئے یونٹ بنا کر ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔ تمام صوبوں کو بلا امتیاز سی پیک منصوبے سے استفادہ دلانا ہوگا۔ کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ دوسرے قومی مفاد میں بننے بنانے والے بڑے بڑے منصوبے تکمیل کے مراحل میںپہنچانے ہونگے۔ اور داخلی امن و امان کے لئے پولیس اور رینجرز کو محلات و حکمرانوں کے ایوانوں سے نکال کر ان کے حوالے کر کے فوج کو سرحدوں کی حفاظت پر پہنچانا ہو گا۔

بدعنوان حکمرانوں سیاستدانوں اور سرکاری آفیسران کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر عبرت کا نشان بنانا ہو گا۔ تب جاکر ہم فساد گردی دہشت گردی سے چھٹکارا اور بغاوتوں سے جان چھڑا پائیںگے۔ اور داخلی اور خارجی دشمنوں پر قابو بھی۔ اس لئے کہ محرومیاں زیادتیاں اور ناانصافیاں ہی فساد فتنوں اور بغاوتوں کو جنم دیا کرتی ہیں۔ (آلامان والحفیظ)

جس دیس میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دیس کے حکمرانوں سے کچھ بھول ہوئی ہے

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
(کالمسٹ) پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر
hajizahid.palandri@gmail.com