تحریر : عبدالحنان مغل اس دوکان سے مجھے میڈیسن خریدتے تیسرا روز تھا اور میں میڈیکل سٹور والے کی خوش اخلاقی سے کافی متاثر بھی تھا، اسی وجہ سے میں بار بار اسی دوکان والے کے پاس جا رہا تھا ۔ہسپتال میں موجود مریض جس کیلئے ادویات خرید ی جا رہی تھیں اب تقریبا صحتیاب ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرز نے جو ادویات لکھ کر دی تھیں، ان میں سے کچھ ادویات بچ گئیں تھیں جو کہ فل پیکڈ اور قابل استعمال تھیں۔میں نے سوچا یہ ادویات واپس کر دی جائیں۔ جب میں اس ارادے سے میڈیکل سٹور والے کے پاس پہنچا اور اسے ادویات کی واپسی کا بولا تو پہلے تو اس نے میری طرف عجیب نظروں سے دیکھا پھر ایسے ردعمل کا اظہار کیا جیسے میں نے اسے کوئی گالی نکال دی ہو۔اس نے ادویات واپس لینے سے صاف انکار کر دیا۔میں حیران رہ گیا کہ جس بندے کے پاس صرف اس کی خوش اخلاقی کی وجہ سے بار بار میں جا رہا تھا اب میرے ساتھ کس طرح کا حسن سلوک کر رہا ہے۔خیر میں نے زیادہ اصرار کیا توموصوف کہنے لگے کہ واپسی اس صورت میں ہوگی اگر آپ نقد رقم واپسی کی بجائے کوئی دوسری میڈیسن خریدیں۔پھر مجبورامجھے متبادل کے طور دوسری ادویات خریدنی پڑی، لیکن واپسی پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہے تو وہ مسلمان اور باہر بورڈ میں نام میں بھی حاجی لکھا ہوا ہے ۔لیکن سامان دیتے وقت اور لیتے وقت اس کے رویے میں فرق کیوں تھا ؟اس رویہ کی وجہ سے میں نے آئندہ کبھی بھی اس سے کچھ نہ خریدنے کا تہیہ کر لیا۔اس طرح کے واقعات ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ بھی رونما ہوئے ہوں، لیکن اس واقعہ کے پیچھے ایک اہم کاروباری راز پوشیدہ ہے جس کو ہمارے بیشتر تاجر اور کاروباری حضرات جانتے ہی نہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خرید و فروخت کے معاملہ کو ختم کرنے کو شریعت میں ”اقالہ” کہتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ خریدارخریدی ہوئی چیز دوکان دارکو واپس کردے اوردکاندار خریدارکی اداکردہ رقم واپس کردے۔ آ پ ۖ کا قول ہے ”جس نے کسی خریدے ہو ئے سامان کو (بلا بحث و مباحثہ اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے)واپس لے لیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے گناہ مٹا دیں گے”۔مگر ہم لوگ مسلمان ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں کر پارہے، اور غیر مسلموں نے اس پر عمل کرکے اس اہم ” کاروباری راز” کو پا لیا ہے۔ ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں جسے سن کر مجھے لگا جیسے میں کوئی خیرالقرون کاقصہ سن رہا ہوں۔ پاکستان میں اکاؤنٹنگ اینڈفنانس کے ایک صاحب ہیںاپنے ساتھ امریکہ میں پیش آیا واقعہ بتاتے ہیں کہ کپڑا خریدے دو ماہ ہو چکے تھے۔ بیگم نے کھول کر دیکھا تو اسے اپنے معیار کا نہ پایا۔ کہنے لگیںیہ واپس کر آئیں۔ میں نے کہابھئی دو ماہ ہو چکے۔ اب واپس نہیں ہوگا۔ بیگم صاحبہ نے اپنی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یقین سے کہا یہاں واپس ہوجاتاہے۔ میں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا اچھا چلو رسید دے دو، میں سوچتا ہوں۔ اہلیہ نے حیرت کا دوسرا جھٹکا دیتے ہوئے کہا رسید بھی گم ہوگئی، لیکن واپس ہوجائے گا۔میرے لیے یہ بیگم کا نکتہء نظر قابل قبول نہیں تھا۔ میں نے تو پاکستان کی دکانوں پر لکھا دیکھا ہے، خریدی ہوئی چیز واپس یا تبدیل نہیں ہو گی۔مجھے تو چند منٹ بعد واپس کرنے پر بھی کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں آرہاتھا کہ دکان دار نے اُسی خوش دلی سے چیز واپس لے لی ہو، جس خوش دلی کا مظاہرہ وہ بیچنے کے موقع پر کر رہا تھا۔ خیر! میں نے کہا کہ یہ کام تم ہی کر کے دکھاؤ۔ ہم دونوں وال مارٹ پہنچ گئے۔
کاؤنٹر پر موجود خاتون نے پہلے رسید مانگی۔ پھر مختلف زبانی معلومات کے ذریعے کمپیوٹر سے اس خرید و فروخت کا پتہ لگایا اور مسکراتے ہوئے کہا: ”جی ہاں! آپ نے فلاں تاریخ کو یہ کپڑا ہمارے اسٹور سے خریدا تھا۔ آپ تبدیل کروانا چاہیں گے یا کیش؟ ‘کیش۔ میں نے جواب دیا۔ اس خاتون نے مسکراتے ہوئے پوری رقم واپس کردی اور کہا Nice Shopping” ” آج کے زمانے میں خریدی ہوئی چیز واپس لے لینا۔ واقعتا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہ رویہ یا تو وہ اختیار کرے گا جو یا تو اس عمل پر اخروی ثواب کی امید رکھتا ہو۔ دوسرا وہ جو اس رویے کے در پردہ مالی فوائد کو سمجھ سکے۔وال مارٹ والے ظاہر ہے گاہک سے چیز ثواب کی نیت سے واپس نہیں لیتے۔ یہ سب کچھ وہ دنیا کے مفادات کی خاطر انتہائی گہری تحقیق کے بعد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنی فراخ دلی جب دکھائی جائے گی تو کچھ لوگ اسے غلط ضرور استعمال کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر بھی غور کر رکھا ہے۔ چنانچہ کرسمس کے بعدوال مارٹ کے باہر ایک طویل قطار سامان واپس کرنے والو ں کی لگتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کرسمس کے لیے جوتے، کپڑے اور ٹائی وغیرہ لے جاتے ہیں اور چند دن استعمال کر کے اس پیشکش کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس کر دیتے ہیں۔ لیکن وال مارٹ میں اسے بھی واپس لے لیا جاتا ہے۔ کیوں؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے انداز ے کے مطابق اس قسم کے لوگ معاشرے میں3 یا4 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے۔ اب اگر ان سے پوچھ گچھ کریں گے تو ہمارے96 فیصد گاہک متا ثر ہوں گے۔ لہٰذا ہم یہ دھوکا کھانے کے لیے تیار ہیں۔ دیکھیے! ہم جس چیز کو مشکل سمجھ رہے ہیں، وہ مغرب میں ”کاروباری راز” کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان کے بازاروں میں ایسا کیوں نہیں۔ غالباً اس کی وجہ دینی معلومات کی کمی یا دنیاوی فوائد کے لیے سنجیدہ ریسرچ سے گریز ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں بدعنوانی زیادہ ہونے کی وجہ سے وال مارٹ کی طرح آفر نہیں دی جا سکتی لیکن ضروری تحفظات کے ساتھ اس پر عمل تو ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اس ”کاروباری راز” پر سنت نبوی ۖسمجھ کر ہی عمل کرنا شروع کر دیں تو یقینا ثواب کے ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی بڑی تیزی سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں سوچیئے گا ضرور!