تقوی اور اس کے تین درجات

ALLAH

ALLAH

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری
تقوی کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ دل میں اللہ تعالی کا خوف اس کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوجائے ، اور اس کے مواخذہ کی فکر پیدا ہو جائے ،جس کے اثر سے زندگی میں تیقظ یعنی دینی بیداری پیدا ہوجائے، تاکہ اللہ تعالی سے غافل کرنے والی ہر چیز سے آدمی بچ سکے ۔ ویسے تقویٰ کی تعریفات و توجیہات میں علمائِ امت نے مختلف تعبیرات استعمال فرمائی ہیں، اور کتاب و سنت سے مختلف انداز میں اس کی وضاحت کی ہے ، مگر ا ن میں حضراتِ محققین نے جسے سب سے زیادہ راجح اور پسندیدہ قرار دیا ہے وہ ہے حضرت ابی ابن کعب کی تعریف وتحقیق، جب آپ سے سیدنا فاروق اعظم نے تقویٰ کی حقیقت معلوم کی، تو آپ نے آسان اور بہترین مثال سے تقویٰ کی حقیقت سمجھائی، فرمایا: ’’اے امیر المومنین !کیا کبھی کسی خار دار راستہ سے آپ کا گذر ہوا ہے ؟ فرمایا: جی ہاں ! متعدد بار گذرا ہوں، اچھا !تو اس وقت آپ نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا تھا ؟ حضرت ابی ابن کعب نے سوال کیا،جواباً حضرت عمر نے ارشاد فرمایا: اس موقع پر خود کو اور اپنے کپڑوں کو نہایت سمیٹ کر بڑی احتیاط سے چلا ہوںکہ کہیں دامن کانٹوں سے الجھ نہ جائے تب حضرت ابی ابن کعب نے عرض کیا:حضرت ! یہی تو تقوی ہے (ابن کثیر )یہ دنیا ایک خار دار وادی ہے ، اس خارستان میں ہر طرف گناہوں کے کانٹے موجود ہیں، اس لیے دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرنا کہ ہمارا ایمانی دامن گناہوں کے کانٹوں سے الجھنے نہ پائے اسی کا نام تقویٰ ہے ، اور جو اس صفت سے متصف ہو جائے وہ متقی ہے۔

تقویٰ کے تین درجات :تقویٰ کا پہلا درجہ :تو یہ ہے کہ بندہ کفر اور شرک سے بچ جائے ،یہ سب سے کم اور ادنیٰ درجہ ہے ،جو الحمدللہ! ہر مسلمان کو حاصل ہے ،اور اگر زیادہ نہیں تو بندہ کم ازکم اتنا کر لے کہ کفر وشرک سے بچے ، تب بھی وہ آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا،اسی لیے تقویٰ کا یہ درجہ فرض ولازم قرار دیاگیا، ارشاد ہے : وَأَلْزَمَھُمْ کَلِمَةَ التَّقْویٰ(الفتح)آیت کریمہ میں تقویٰ سے یہی مراد ہے (مظاہر حق جدید) حدیث قدسی میں ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی :ھُوَ أَھْلُ التَّقْوٰی وَ أَھْلُ الْمَغْفِرَةِ(المدثر )یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے کہ اس سے ڈراجائے او روہی معافی او رمغفرت کے اختیارات بھی رکھتاہے ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا ارشادہے میں تقویٰ اختیار کرنے والو ںکے ساتھ ہوں، او رجس نے تقویٰ اختیار کیا، یعنی میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا،تو میری شان (رحمت کا تقاضا) یہی ہے کہ میںاس کی مغفرت کردوں۔(ترمذی)۔

تقویٰ کا دوسرا درجہ: یہ ہے کہ ایک انسان جیسے کفرو شرک سے بچتا ہے ،تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے ،یہ درمیانی درجہ کا تقویٰ ہے ، جوہر مسلمان پرواجب ہے ، اور محاورہ میں اسی کا نام تقویٰ ہے ، ارشادِ باری :وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ القُریٰ آمَنُوْا واتَّقَوْا(الأعراف)اب جو شخص جتنا زیادہ گناہوں سے بچے گا اور بچنا چاہے گا وہ اتنا ہی زیادہ متقی ہوگا، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجالائے (گلدستۂ تفاسیر)امام محمد سے کسی نے فرمائش کی کہ آپ تقویٰ پر ایک کتاب لکھیں، تو انہو ںنے فرمایا:صَنَّفْتُ کِتَابَ الْبُیُوْعِ میں نے خرید وفروخت او ردوسرے معاملات پر ایک کتاب لکھ دی ہے ، مقصد یہ تھا کہ معاملات میں شریعت(کے احکامات) کی پابندی اور محرمات سے بچنا تقویٰ پیداکرنے کا بڑا ذریعہ ہے ۔(عبادت وخدمت)پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جوشخص اللہ تعالیٰ کا پیارہ بننا اور گناہوں سے بچنا چاہتا ہے ربِ کریم اسے ضرور بالضروراپنا پیارا بناتا اور گناہوں سے بچاتاہے ،چنانچہ آیت قرآنی و ارشاد ربانی ہے : وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت)او رجن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے ، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیںگے۔اس کی تفسیر بعض علماء نے یہی بیان فرمائی ہے ۔ (واللہ اعلم )
ایک عبرت آموزواقعہ :اس سلسلہ میں علامہ عبد الرحمٰن صفوی نے اپنی کتاب” نزہةالمجالس ”میں اور ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں ایک عبرت آموز واقعہ بیان فرمایا ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظم کے زمانے میں ایک شخص نوجوان،عبادت گزار اور پرہیزگار تھا۔

ایک عورت اس پر فریفتہ تھی، وہ اس کو مسلسل اپنی طرف مائل کرتی رہتی تھی،حتیٰ کہ وہ نوجوان ایک دن اس کے گھرآ ہی گیا،لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ! اسی وقت اسے یاد آیاجس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ متقی ہیں،جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خطرہ (گناہ کا) لاحق ہو جاتا ہے ،تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگ جاتے ہیں(الاعراف)یکایک اس کی حقیقی ایمانی آنکھ کھلی،خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا اور ارادئہ معصیت ترک کر دیا، اور اتنا ہی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کا اس قدر غلبہ اس پر ہوا کہ وہ بے ہوش ہو گیا، جب ہوش میں آیا تو پھر یہی آیت بار بار پڑھنے لگا،حتیٰ کہ پڑھتے پڑھتے جان بحق ہو گیا،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنََّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس واقعہ کاپتہ چلا تو اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعائِ مغفرت کے بعد اس کی قبر سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے نوجوان ! وَلِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن )جو اللہ سے ڈر گیا اس کے لیے اللہ کی طرف سے دو جنتیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ کو سن کر قبر کے اندر سے آواز آئی:اے عمر! اللہ تعالیٰ نے مجھے دونوں جنتیں بخشی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقام خوف ِ الٰہی اور تقویٰ سے حاصل ہوتا ہے ،وہ جس کی زندگی میں ہے حق تعالیٰ اس کی دنیا بھی جنت کدہ بنا دیتے ہیں،اس لیے بعض مفسرین فرماتے ہیں: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن) میں ایک تو آخرت کی جنت مراد ہے ، اور دوسری دنیا کی۔

تقویٰ کا تیسرا اورسب سے اعلیٰ درجہ :لیکن تقویٰ کا تیسرا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک انسان اپنے اللہ اور انجام کے خوف سے جملہ معاصی اور محرمات سے توبچتا ہی ہو، اسی کے ساتھ مکروہات اورمشتبہات سے بھی بچ جائے ، اور اپنے باطن کو غیر اللہ میں مشغول نہ کرے ۔یہی حق تقویٰ اور حقیقی تقویٰ ہے ، اور جس کا حکم رب العالمین نے اس طرح فرمایااے ایمان والو! دل میںاللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے (آل عمران) اورحدیث میں ہے کہ بندہ اس وقت تک حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو ترک نہ کر دے جن میں حرج نہیں،اس خوف سے کہ کہیںحرج میں نہ پڑ جائے (ترمذی)سلفِ صالحین اور ان میں بھی خصوصاً متقدمین کا تقویٰ یہی تھا،اس سلسلہ میں متقدمین کے تو بڑے ہی عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں،چناںچہ امامنا العلام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے تجارت میں اپنے ایک شریک حضرت حفص بن عبد الرحمن کے پاس کچھ کپڑا بھیجا، کپڑے کا ایک تھان ذرا سا عیب دار تھا،تو حضرت نے بتایا کہ خریدار کو اس سے ضرور آگاہ کر دینا اتفاق سے وہ خریدار کو بتلانا بھول گئے اور یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ عیب دار تھان کس کے ہاتھ فروخت کیاامام صاحب کو جب معلوم ہوا توبہت افسوس کا اظہار فرمایا،پھر اسی پر اکتفا نہ کیا،بلکہ سارے تھانوں سے حاصل ہونے والی قیمت صدقہ کر دی،جس کی رقم تیس ہزار درہم تھی،تا کہ مشتبہ مال سے مکمل اجتناب ہو ۔(الخیرات الحسان فی مناقب أبی حنیفة النعمان)یہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ ہے ،جو فرض تونہیں، البتہ افضل ضرور ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفر وشرک سے بچنا ادنیٰ درجہ کا تقویٰ ہے ،فسق و فجور سے بچنا اوسط درجہ کا تقویٰ ہے ،اور غیر اللہ سے بچنا،اسی طرح ہر اس چیز سے بھی بچنا جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں رکاوٹ پیدا ہو، جیسے شکوک و شبہات، تو یہ اعلیٰ درجہ کا تقوی ہے۔

Rizwaniullah Peshawari

Rizwaniullah Peshawari

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری
0313-5920580
rizwan.peshawarii@gmail.com