تحریر : محمد ریاض پرنس عام طور پر یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کا معیار تعلیم گر رہا ہے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں تو یہ بات بہت زیادہ دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہو تی ہے کہ طلباء کی کثیر تعداد ہر سال امتحان میں فیل ہو جاتی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیاد ہ تر وہ طلباء فیل ہو جاتے ہیں جن کو انگلش میڈیم کورس اور پڑھائی کے وسائل میسر نہیں ہوتے ۔ مثلاً ٹیوشن، اخراجات،مہنگا ترین نصاب وغیرہ ۔ اور جن کو یہ تمام وسائل آسانی سے مل جاتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور جن کو یہ وسائل نہیں ملتے وہ قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ جب ہم معیار تعلیم گرنے کی با ت کرتے ہیں تو کم ازکم یہ بات تو ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ معیار تعلیم کس لحاظ سے گر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کے بہت سے پہلو ہوں گے ۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ معیار تعلیم ہر پہلوسے گر رہا ہو، اور جب ہم ایسی بات کرتے ہیں تو ہم کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر معیار تعلیم گر رہا ہے تو کچھ پہلو ایسے بھی ہیں کہ جن کے ذریعے معیار تعلیم میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو موجودہ صورتحال میں طلباء کے اوسط نمبر پہلے کی نسبت زیادہ آ رہے ہیں ۔فرسٹ ڈویژن لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی طرح میرٹ میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ موجودہ نصاب پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔ پہلے ہمارے دورمیں صرف ایک کتاب ہوتی تھی اور ہم ایک کلاس پاس کر لیا کرتے ۔ اب پلے گروپ میں ہی دیکھ لیں جتنا بچے کا وزن ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی کتابوں کا وزن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے بچوں کو بہت سی معلومات کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے جو کہ ہمارے دور میں نہ تھا۔ اور اگر ہم تعلیمی اداروں کے ماحول کی بات کریں تو اس موجودہ دور میں جدید ترین سہولتوں سے مزین ادارے موجودہ ہیں ۔ جو امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں سے الحاق کی بنیاد پر چل رہے ہیں ۔اور بہت سے ایسے ادارے ہیں جو ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ ہیں ۔ ان اداروں میں Teaching and Learning Environmentپہلے کی نسبت بہت بہتر ہے۔ بلیک بورڈ کی جگہ پروجیکٹر نے لے لی ہے ۔ ٹوٹے ہوئے بنچوں کی جگہ آرادم دہ کرسیاں ہیں۔پہلے ٹیچرز میٹرک پاس ہوا کرتے تھے اب تمام ٹیچرز ایم ایس سی ،ایم ایڈ ہیں ۔اگر ان پہلووں کو دیکھا جائے تو میعار تعلیم میں یقینی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
اگر میں بات کروں چند سال پہلے دور کی تو اس دور میں میعار تعلیم کم نہ تھا مگر ہم اس کو اچھے طریقے سے رائج نہ کر سکے۔ جس کی وجہ سے ہم کو وہ رزلٹ نہ ملے جس کی ہم کو امید تھی ۔ پہلے دور میں ایک کلاس ہوتی تھی جس میں ایک طالب علم سے لے کر پچاس ،سو کی تعداد ہوا کرتی تھی مگر موجودہ دور میں ایسا نہیں ہے ۔ ایک کلاس کو بہت سے سیکشن میں بانٹا جا چکا ہے۔ایک سیکشن میں بیس سے پچیس طلباء ہیں۔ جس کی وجہ سے طالب علموں کو زیادہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور اچھے طریقے سے تدریس کا عمل میسر ہوتا ہے۔
Education
معیار تعلیم کا ایک پہلو یہ بھی ہونا چائے کہ معیار تعلیم کے لئے ہم طالب علموں کو بہت سے وسائل تو مہیا کر رہے ہیں ۔مگر ہم ابھی وہ رزلٹ حاصل نہیں کر سکے جن کی ہم کو ضرورت ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف طلباء کا ذہن ٹاپ کی پوزیشن لینے کے لئے تیار کرتے ہیں ۔ صرف ٹاپ پوزیشن حاصل کرنا ہی طلباء کی ذمہ دار ی نہیں ہے بلکہ ان کو ایک اچھا انسان بنا نا بھی معیار تعلیم کا حصہ ہونا چاہئے ۔جب طالب علم ایک اچھا انسان بنے گا تو پھر ہی معیار تعلیم کا پتہ چلتا ہے کہ واقع ہی اچھا طالب علم ہے۔
موجودہ دور میں ہم بہت مہنگی تعلیم تو حاصل کر رہے ہے مگر اس اس تعلیم کا ہم کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ۔ کیونکہ ہمارا آج کا طالب علم بہت ہی کمزور ہے۔ ہمارا تدریس کا طریقہ کار ایسا ہونا چاہئے جس سے طلباء کی تربیت اور نشوونما اس انداز سے ہوکہ جب وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے ان اداروں سے نکلیں تو وہ ایک طاقتور ذہن اور ایک اچھا انسان بن کر اپنے گھر وں کو لوٹیں۔
اور جن اداروں کی کارکردگی سے ہم مطمئن نہیںاور مایوس ہو رہے ہیں ان اداروں میں لینگوئج کا بہت بڑا مسلہ ہے۔ہماری قومی زبان اردو ہے ۔ ہمارے ملک کے اندر یہ بہت بڑا مسلہ ہے کہ ہم دوسروں جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں دوسروں کی ثقافت کو اپنانا چاہتے ہیں۔ اور اپنی زبان اور ثقافت کو بھول جاتے ہیں ۔دوسروںکا طرز زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہم اپنا طرز زندگی بھول جاتے ہیں اور ہم کو بعد میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم اپنی قومی زبان کی جگہ انگلش کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ طلباء کو انگلش سمجھنے اور پڑھنے میں مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتاہے۔ جس کی وجہ سے رزلٹ اچھے نہیں ملتے ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی زبان میں ترقی کریں۔
دنیا میں جس ملک نے بھی ترقی کی اس نے اپنی زبان میں کی ۔ اس نے اپنی زبان کو کسی دوسری زبان پر ترجیح نہیں دی اس لئے وہ ترقی کر رہے ہیں ۔ اور ہم انگریز بننے کے چکر میں مایوس اور ذلیل ہو رہے ہیں۔ اور ساری دنیا کے سامنے مذاق بنے ہوئے ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ اس قومی مسلے کا حل صرف نوٹیفکشن کرنے میں نہیں بلکہ اس پر عمل کروانے میں ہے جو کہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ تمام اداروں اور دفاتر میں قومی زبان کو رائج کیا جائے ۔ تاکہ ملکی ترقی میں قومی زبان اردواپنا بھر پور کردار ادا کر سکے۔