معاشرہ کیوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے

Society

Society

تحریر : محمد ارسلان جمال
معاشرہ جس سے مراد لوگوں کا ایسا گروہ جو زندگی کے مراحل میں ایک دوسرے کے طابع ہوکر گزارتے ہیں۔جس طرح ایک ملک اکیلا نہیں چل سکتا اسے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح انسانی زندگی کا کوئی بھی گھرانہ دوسرے گھرانے کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتا ان کا ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہونا ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوں۔لیکن بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے دکھ درد کی وجہ بن رہے ہیں۔ایسے اقدام کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری، حقوق لعباد سے منہ پھیرنا ہے۔

جب آپ اپنے پڑوس میں رہائش پزیر افراد کو نہیں جانیں پہچانیں گے تو معاشرہ کہاں سے مضبوط ومربوط ہوگا؟آج ہم صرف اپنی ذات کا سوچتے ہیںہمیں نہیں فکر کہ دوسرا کس حال میں زندگی بسر کر رہا ہے۔آپس میں سڑکوں پر مسلمان چھوٹی سی نوک جھوک پر دست وگریباں نظر آتے ہیں۔صبر،تحمل،محبت ،خلوص،پیار یہ سب مسلمانوں کی صفات کہاں چلی گئی؟استاد یہ رونا رورہے ہیں کہ طالبعلم ان کی عزت نہیں کرتے ، جبکہ طالبعلم یہ کہتے ہیں کہ استاد ہمیں نہیں پڑھا رہے ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ طالبعلموں نے اپنا استاد لیپ ٹاپ،موبائل فون اور انٹرنیٹ کو مان لیا ہے۔استاد پڑھائے یا نہ پڑھائے وہ فورا نیٹ کا سہارا لیکر اپنا سبق مکمل کرلیتے ہیں۔

بعض جگہ تو آن لائن ٹیچنگ کے سروسز فراہم کئے جارہے ہیں۔اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کی محبت و احترام جو استادکے سامنے ہوتا ہے وہ انٹرنیٹ سے آن لائن پڑھنے میں نہیں ہوتی۔اسطرح استاد کی غیر موجودگی طالبعلموں کے دلوں سے استاد کی اہمیت ختم کر رہا ہے ظاہر سی بات ہے جب سب چیزیں انڑنیٹ پر آجائیں تو استاد کی قدر کہاں رہ جائے گی۔جب انسان کا پیٹ بھر جائے تو دوبارہ اس وقت تک نہیں کھائے گا جب تک اسے بھوک نہ لگے اور یہاں یہ بھوک انڑنیٹ ٢٤ گھنٹے پورا کررہی ہے۔

اس بات سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ آج استاد کی عزت طالبعلموں کی نظر میں کم ہورہی ہے تو اس کی وجہ وہ خود بھی ہیں۔کیوں کی اکثر ایسا ہوتا ہے خاص کر جامعات میں کہ استاد اپنے من پسند بچوں کواچھے نمبرں سے پاس کرتے ہیں ۔یا وہ بچہ جو ان کے بتائے ہوئے غیر نصابی کام کرے اسے اچھے مارکس دئے جاتے ہیں ۔اس غیر اخلاقی عمل سے دوسرے طالبعلم متاثر ہوتے ہیں اور ان کا حق یہاں استادوں کے ہاتھو چھینا جاتا ہے ۔بعض جگہ ایسا بھی دیکھنے کو ملاکہ ایک استاد پا ن کھانے کے بڑے شوقین تھے تو ایک طالب علم ان کا ہم خیال تھا وہ اکثر انہیں پان لاکر دیتا ۔انتہائی درجے کا نکمہ طالبعلم تھا لیکن جب امتحانی نتائج سامنے آئے تو اس کے نمبر آسمانوں سے باتیںکر رہے تھے۔رہی بات معاشرے میں لوگوں کے دومیان دوری کی تو ا س کی وجہ بھی موبائل فون،لیپ ٹاپ،انڑنیٹ اور دیگر برقی آلات ہیں ،ان تمام تر ٹیکنولوجی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اسی کا استعمال ہے کہ آج ہم بہت دور جاچکے ہیں ۔پہلے یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کے گھر موبائل فون نہیں ہوتے تھے تو لوگ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے، محفل جمائے جاتے ایک دوسرے آپس میں قصیں کہانیاں سناتے،آپس میں اپنا دکھ درد بانٹتے تھے۔لیکن اب موبائل آنے کے بعد یہ ہوا کہ لوگ موبائل کی جانب مائل ہونا شروع ہوگئے ۔اب کوئی ایسی محفلیں نہیں سجتیں جو پہلے سجا کرتی تھی۔

اب اگر کسی محفل میں بھی چلے جائیں تو وہاں بھی لوگ ایک دوسرے سے کم موبائل سے زیادہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں ،ان کی نظریں موبائل فون پر ہی جمی ہوتی ہیں ۔سائنسی تحقیق کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال آنکھوں کی بینائی متاثر کر سکتا ہے ساتھ ہی آپ سر درد اور متعدد بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔بچہ پیداہوتے کچھ سیکھے نہ سیکھے موبائل چلانا ضرور سیکھ جاتا ہے اور اگر وہ روئے دھوئے تو ہم خود اسے موبائل فون تھما دیتے ہیںتا کہ وہ چپ ہوجائے یہی وہ بری عادتیں ہیں جو آگے چل کر بچوں کو خراب کرتی ہیں۔نازک سابچہ جس کی آنکھیں بھی نازک ہوتی ہیں اس پر پڑنے والی موبائل فون کی روشنی خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔حقیقت ہے کہ جیسا آپ بوتے ہیں وہی کاٹیں گے اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنی آنے والی نسل کو بچائیں تو ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ،موبائل،لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ کی اجازت دیں لیکن نظر رکھیں اور ایک مقرر وقت طے کریں اس دوران وہ اس کا استعمال کریں نہ کہ فضول قسم کی چیٹنگ میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں ۔والسلام

Arsalan Jamal

Arsalan Jamal

تحریر : محمد ارسلان جمال
شہر کراچی
03417031350
arsalanjamal217@gmail.com
4240157005793