تحریر: شہزاد حسین بھٹی پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کاعالمی دن آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ خواتین نے دنیا کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ خواتین کی معاشرے میں اسی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلیے دنیا بھر میں ان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
برطانوی وزارتِ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کا تسلسل دیکھنے میں آیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2016 ء میں بھی پاکستانی خواتین کو تشدد سیمت مختلف سنگین مسائل کا سامنا رہا اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔برطانوی وزارت خارجہ کی پاکستان میں خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل میں اضافے بارے رپورٹ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ ایک طرف حکومت خواتین کو زیادہ سے زیادہ بااخیتار بنانے کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہے لیکن دوسری طرف برطانوی رپورٹ ان دعووں کی نفی کر رہی ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ 21 ویں صدی کے باشندے ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان میں خواتین کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسا کوئی روز نہیں گزرتا جس دن اخبارات میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے خبریں نہ چھپتی ہوں۔خواتین کے عالمی دن پردنیا بھرمیں تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں حوا کی بیٹیاں آج بھی ظلم کی شکارہیں، ہرسال پاکستان میں خواتین پرتشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اورجو رپورٹ نہیں ہوپاتے ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
اس دن ملک بھر کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں قیمتی ملبوسات میں ملبوس این جی اوز کی روشن خیال خواتین اور خواتین نما مردوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ وزرائ مشیروں، بیوروکریٹس سے لے کر میڈیا ارکین تک نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اور بعد ازاں تقریبات میں بنائی جانے والی تصاویر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر پوسٹ اور پرنٹ کر دی گئیں۔
اس قسم کی کئی تقریبات میرے آبائی ضلع اٹک میں بھی منعقد ہوئیں۔ خواتین کی مظلومیت اور حقوق کا خوب رونا رویا گیا۔ بلند و بانگ دعوئے اورآسمان سے تارے توڑ کر لانے کے عہد نبھائے گئے۔ ان تقریبات کی صدارت وزرائ، بلدیاتی نمائیندوں اورضلعی افسران نے کی۔ جن کے اپنے ضلع اٹک کے تھانہ جنڈ کے گاوں “چورا شریف” کی مفلس اورنادار خاتون “اناراں بی بی” غنڈا گرد عناصر کے بدترین تشدد کا شکار ہو کر ہڈیاں تڑوا بیٹھی اور ایک ماہ گزر جانے کے باوجودملزمان کی گرفتاری عمل میں نہ آسکی۔انارا ں بی بی اپنی ایک جوان سال بیٹی اور بیٹے کے ہمراہ گاوں چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہو چکی ہے مگر اس کے پاس نہ تو زادِ سفر ہے اور نہ ہی کوئی ٹھکانہ جہاں وہ جاکر وہ اپنا سر چھپا سکے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس گاوں کے بااثر غنڈا گرد جن کو بعض سیاسی لوگوں اور پولیس کی مکمل سرپرستی اور آشیر باد حاصل ہے۔ احمد صدیق، اکثر خان اور ندیم نے معمولی تنازے پر دیگر افراد کے ہمراہ ستر سالہ اناراں بی بی کے گھر داخل ہو ئے اور غنڈا گردی اورتشدد کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے اہل خانہ کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔ اس واقعہ میں اناراں بی بی کی جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ میڈیکل رپورٹ کے بعد بڑی مشکل سے متاثرہ خاندان 9 فروری 2017 کو تھانہ جنڈ میں اپنی ایف آئی آر نمبر 17/19 درج کروانے میں کامیاب ہوا۔ مگر ایک ماہ کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ملزمان گرفتار نہیں ہوئے اور ملزمان مسلسل راضی نامے کے لیے دَبائو ڈال رہے ہیں تاکہ انہیں حوالات نہ جانا پڑے اور مظلوم اناران بی بی کا اس گاوں میں رہنا مشکل کر دیا ہے۔
اناراں بی بی اپنے بچوں کے ہمراہ ہجرت پر مجبور ہے مگر اس کے پاس نہ کوء متبادل ٹھکانہ ہے اور نہ سفر کا خرچہ۔ اطلاعات ہیں کہ تھانہ جنڈ کا تفتیشی افسر مکمل طور پر ملزمان کی مٹھی میں ہے۔ سیاسی دبائو اور چمک کا آمیزہ اسے ظالموں کے مقابلے میں بھلا مظلوم کی مدد کب کرنے دینا ہے۔ اور ایسے موقعوں پر عموماً ایسے ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس ظالم کے ساتھ ہی کھڑی ہوتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے نامناسب رویہ پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے جنکی ناک کے نیچے ظلم کی داستاں رقم کی جا رہی ہے اور وہ بڑے اہتمام کے ساتھ خواتین کے حقوق ک رونا رو رہے ہیں۔متاثرہ خاندان کی مدد کے بجائے خواتین پر مظالم اور انکے حقوق کے راگ الاپے جا رہے ہیں۔خادم اعلیٰ پنجاب اور حقوق انسانی کی تنظیموں کے لئے اناراں بی بی کا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے اس میں نہ صرف ملزمان بلکہ ذمہ دار پولیس اہلکاروں و افسران کو بھی ایسی سزاء دی جائے کہ وہ مقام عبرت بن جائیں۔