تحریر : جاوید صدیقی افواج پاکستان ہو یا جمہوری سول حکومت ہر جانب ہر نقطہ نظر سے ایک بات پر کم از کم متفق ہیں کہ پاکستان بھر میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھا جائے اور کئی سالوں سے کئی نام کیساتھ آپریشن کیئے گئے اور آج کل آپریشن رد الفساد کے نام سے جاری ہے ، کسی بھی ملک کی سول انتظامیہ اس وقت تک بہتر نتائج پیش نہیں کرتی ہے جس میں نظام ریاست ایک بہتر سمت میں تحقیقی رو سے نا کیا جائے، افواج کا کام جنگ لڑنا ہوتا ہے جبکہ سول انتظامیہ شہری و دیہی معاملات کو ایک بہتر نظام کے تحت چلاتے ہیں ،بحیثیت صحافی میں اپنے وطن عزیز کی ترقی، خوشحالی ،امن و امان کیلئے حکومت وقت کو اپنی تجویز سے آگاہ کرنا فرض عین سمجھتا ہوں ، میرے نزدیک ملک بھر میں پھیلے ہوئے گداگروں کیلئے نادرا میں ایک کارڈ کا اجرا کیا جائے جس میں اس کی تمام تر تفصیلات درج ہوں، نام، ولدیت،خاندان کے افراد، قبیلہ، سکنہ، شہر، مقام، زبان، قوم، تعلیم، ہنر، صحت کی تفصیلات، دولت جمع شدہ،رہائش گاہ سے کس طرح مسروقہ جگہ پہنچتے ہیں اورواپس جاتے ہیں، بیماری ، کون سے تھانے کی حدود میں رہائش اور کون سے تھانے کی حدود میں گداگری کرتے ہیںاور وجہ گداگری جیسے سوالات درج ہوں ، ماہرین نادرا اس میں کئی سوالات درج کریں تاکہ حقیقی معنوں میں ضرورتمند گداگر کی تعداد سامنے آجائے۔ اس نادرا کے ڈیٹا سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ انسانی اسمگلنگ کون کررہا ہے،کون ملوث ہے اورپس پشت کون ہے۔۔!!معزز قائرین! ہمارے ایوان میں منتخب نمائندگان یوں تو وقت کا ضیاع کرتے چلے آرہے ہیں مگر شائد ان میں کوئی ایک ہی ایسا نمائندہ ہو جو اس پہلو پر بات کرے کیونکہ یہ پہلو بہت اہم اور نازک بھی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ وہ گروہ بھی ہے جو چھوٹے بچوں بچیوں کو اغوا کرتے ہیں ، اغوا کار گروہ حسن بازار میں بھی بیچ دیتے ہیں جب تک ایوان مین اغواکاروں کے خلاف سزا موت متعین نہیں کی جائے گی یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا، گداگری کے اس شعبے میں پس پردہ کئی گھناؤنے کام ہورہے ہیں۔
تحقیق و مشاہدے سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ گداگری کے شعبے کی پشت پناہی پولیس کررہی ہوتی ہے اور پولیس کو حکم ایسے باختیار لوگ دے رہے ہوتے ہیں جو معاشرے میں بری عزت کے حامل ہوتے ہیں ، ایسے ظاہری شرفا اپنی عیاشیوں کیلئے خوبصورت گداگر خاتون سے اپنے نفس کی تسکین بھی کرتے ہیں ، یہی گداگر خاتون جو مکمل صحت مند ہوتی ہیں اور اکثر ان کی عمریں بھی زیادہ نہیں ہوہ وہ شاہراہوں، بازاروں، مزاروں،پبلک پوائنٹ ، ریسٹورینٹ ،اسپتالوں کے علاوہ سنسان جگہوں پر میسر ہوتی ہیں اور رقم کمانے کیلئے گاہک تلاش کرتی ہیں، نجی میڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو اس قدر اچھالے کہ حکومت وقت آئین میں اس بارے میں قانون سازی کرنے پر مجبور ہوجائے خاص کر دنیا ٹی وی کے سینئر صحافی کامران خان ، کامران شاہد ،جیو ٹی وی کے سینئر صحافی حامد میر،سینئر صحافی طلعت حسین، سلیم صحافی ، نجم سیٹھی ،ایکسپریس چینل کے سینئر صحافی جاوید چوہدری، چینل چوبیس کے سینئر صحافی مجاہد بریلوی، نسیم زہرہ، مبشر لقمان، نیوز ون کے سینئر اینکر ڈاکٹر شاہدمسعود ، بول چینل کے سینئر صحافی نذیر لغاری، عامر ضیا اور فیصل عزیز،چینل نائنٹی ڈو کے سینئر اینکر ڈاکٹر دانش، اے آر وائی نیوز کے سینئر صحافی ارشد شریف، سمی ابراہیم، کاشف عباسی، عارف حمید بھٹی، صابر شاکر، وسیم بادامی، سید اقرار الحسن سمیت کئی محترم محقق صحافی حضرات اور اینکرز پرسن سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس موضوع پر ضرور بات کریں مجھ ناچیز سے وہ وسیع انداز میں تحقیق نہیں ہوسکی ہے جویہ محترم حضرات کرسکتے ہیں لیکن پھر بھی جو کچھ حاصل کرپایا ہوں۔
اپنے قائرین کیلئے پیش کرونگا۔۔۔۔!!معزز قائرین! آج سے چالیس پچاس سال قبل گداگر بہت قلیل تعداد میں ہوتے تھے ان کی حالت قابل رحم اور قابل ترس ہوتی تھی لیکن اُن وقتوں میں بھی یہ بات کہی جاتی تھی کہ اغواکار انہیں معزور کرکے بھیک منگواتے ہیں ،لیکن دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کبھی بھی ہمارے منتخب نمائندگان نے اس جانب توجہ نہ دی جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لاکھوں نہیں بلکہ کڑوروں کی تعداد گداگری میں ملوث ہے ، یہی لوگ اگر محنت مزدوری کریں تو کس قدر پاکستان کی قومی خذانے پر فرق پڑے گا، کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت نجی شعبے کیساتھ گداگری کے خاتمے کیلئے ایسے عملی انتظامات کرے جس سے نہ صرف یہ بہتر شہری بن کر سامنے آئیں بلکہ فن و ہنر اور تعلیم کیساتھ معاشی و اقتصادی بہتری کا باعث بنیں، اس کیلئے حکومت کو سخت ایکشن لینا ہوگا کیونکہ گداگری کے فروغ اور کاروبار میں خود حکومت کے چند نمائندگان اورپولیس اہلکار سمیت افسران شامل ہیں ، حکومت کو اپنے اور غیر کا فرق مٹاتے ہوئے آپریشن انسداد گراگری کرنا ہوگی لیکن آپریشن سے قبل اصلی گداگروں کی بقا و سلامتی کیلئے پلان تیار کرنا ہوگا جبکہ بہروپیوں کے خلاف سخت سے سخت سزا دینی ہوگی تاکہ پھر کسی کی ہمت نہ ہو کہ پاکستان اور پاکستانی معاشرے اور شہریوں کی زندگی سے کھیل سکیں، توقع کی جاتی ہے کہ جمہوریت کا آلاپ گانے والے اس مرحلے میں اپنا قومی فریضہ ضرور ادا کریں گے بصورت دیگر سیاسی جماعتوں ، سیاسی رہنماؤں کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی تو یہ بات بھی چھپی نہیں رہے گی کہ اس گھناؤنے کاروبار میں یہ لوگ بھی ملوث ہیں۔
ایسی صورت میں افواج پاکستان اور پاکستان کی عدالتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی بقا وسلامتی کیلئے آپریشن انسداد گداگری کا اعلان کردیں اور اس آپریشن کے ذریعے ملوث ملزمان کو فوجی عدالتوں کے سامنے پیش کریں تاکہ جلد اور فوری نتیجہ برآمد ہوسکے اور پاکستان سے گداگری کا حقیقی معنوں میں خاتمہ ممکن ہوسکے۔۔۔!!معزز قائرین! کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جا بجا ہر جانب اب گداگروں کی بارش نطر آتی ہے روز کے ہزاروں کمانے والے نہ حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور بل ادا کرتے ہیں جب ان کے خلاف قانونی چارہ گوئی کی جائے گی اور ان کی ماہانہ کمائی پر ٹیکس لگایا جائے گا تو پتا چلے گا کہ یہ رقم کہاں جاتی ہے ، آج کے دور میں لوگ دس بیس کوئی پچاس سو تو کوئی پانچ سو یا پھر کوئی ہزار تک دیتے ہیں ،میں نے ایک گداگر سے انٹرویو کرتے ہوئے معلوم کیا کہ روز کا کی کما لیتے ہو تو اس نے بتایا کہ کمائی کا تعلق علاقوں، جگہوں پر زیادہ ہوتا ہے جیسے کلفٹن، ڈیفنس، گلشن، نارتھ ناظم آباد، ایئرپورٹ، ٹاور، بندرروڈ، صدر، کھارادر و میٹھا در ایسے علاقے ہیں جہاں روز کی کمائی دس سے بیس ہزار تک ہوجاتی ہے جبکہ تہوار میںمزید بڑھ جاتی ہے ،اُس کے مطابق اس رقم کے کئی حصے بنتے ہیں ایک فوری طور پر علاقہ تھانے جہاں سے کمارہے ہیں وہاں جاتا ہے۔
پچیس فیصد، پھرہمارا ہیڈ جو ہمیں گھر سے متعلقہ جگہ پر لانے اور واپس لے جانے والا پچاس فیصد لے جاتا ہے،پانچ فیصد جہاں ہم رہ رہے ہیں وہاں کے تھانے میں جاتا ہے آخر میں ہمیں صرف کمائی کا بیس فیصد ملتا ہے ،یہ عام فہم میں گداگری کی کمائی کہلاتی ہے اُس نے مزید بتایا کہ اس میں تڑکا بھی لگایا جاتا ہے منشیات کی فروغ سے لیکر جنسی عیاشی تک کا کاروبار عروج پر چل رہا ہے ظاہر ہے کمائی نیچے سے لیکر اوپر افسر اورایوان میں بیٹھے کچھ وزرا تک ۔۔۔! !معزز قائرین! برسوں سے ملک کو کھوکھلا کرنے والوں کیساتھ مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار رکھی گئی ہے اس معاملہ میں سول انتظامیہ سے لیکر عدلیہ بھی اپنے آپ کو بری ذمہ قرار نہیں دے سکتی یوں تو عدلیہ از خود نوٹس لے لیتی ہے اس اہم ترین معاملات پر خاموش کیوں ؟؟؟ سول انتظامیہ اپنے اندر کی کالی بھیڑیں کب ختم کریگی کیونکہ یہی بھیڑیں اس نظام کو برباد کیئے ہوئے ہے ، صوبائی وزیر اعلیٰ سمیت تماموفاقی وزرا کو اس اہم ترین معاملے میں اپنا پانا کردار ادا کرنا چاہیئے اور گداگری کے خلاف آپریشن رد الفساد کی طرح آپریشن انسداد گداگری کا آغاز کرنا چاہیئے ، اللہ پاکستان کو ہر بلا و مشکل سے محفوظ رکھے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہچائے آمین ثما آمین ۔۔۔۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔