تحریر : فہیم چنگوانی سرائیکی کلچر پاکستان کے ثقافتی منظر نامے پر ایک نمایاں اور خوبصورت رنگ ہے۔ سرائیکی ثقافت کا مسکن دریائے ستلج کے کناروں سے کوہ سلیمان کی چوٹیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تاریخ تہذیب انڈس سویلائزیشن سے جڑی ہوئی ہے۔ سرائیکی ثقافت کا نمایاں رنگ ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، میانوالی اورخوشاب کے سرسبزو شاداب خطے پر محیط ہے جبکہ پورے پاکستان اور دنیا میں سرائیکی بولنے والے اپنی میٹھی اور مدھر زبان، خوش اخلاقی اور سادگی کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔ برصغیر میں جب اسلام کی آمد ہوئی تو سندھ باب الاسلام سے اسلام سرائیکی خطے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہوا پنجاب وارد ہوا۔ اس خطے کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اکثریتی مسلک سنی ہے جبکہ شیعہ بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ باہمی سلوک اور محبت کی وجہ سے سرائیکی خطہ خاصا پرامن اور دہشت گردی و فسادات سے پاک ہے۔
سرائیکی ثقافت میں صوفیاء کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ ملتان کو ولیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ شاہ رکن الدین عالم، شاہ یوسف گردیز، شاہ شمس تبریز اور بہاالدین ذکریا سہروردی، سید احمد سعید کاظمی (رحمھم اللہ اجمعین) چند مشہور صوفیاء ہیں جن کے مزارات ملتان میں ہیں۔ اس کے علاوہ خواجہ سلیمان تونسوی (تونسہ شریف)، سید احمد سلطان المعروف سخی سرور(سخی سرور)، سید امام علی شاہ (لودھراں)، خواجہ ابوبکر وراق (میلسی)، خواجہ غلام فرید (کوٹ مٹھن شریف) تصوف کے چند مشہور نام ہیں جن کا تعلق سرائیکی خطہ سے ہے۔
سرائیکی زبان ہندی آریائی زبانوں کے قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے جس کا رسم الخط عربی فارسی طرز کا ہے۔ سرائیکی زبان پاکستان کی سٹینڈرڈائزڈ زبانوں میں سے ایک ہے اور بہاالدین ذکریا یونیورسٹی میں ایک شعبہ سرائیکی زبان کی ترویج و تعلیم کے لئے مختص ہے۔ سرائیکی زبان میں ایم اے سے پی ایچ ڈی تک تحقیق کروائی جاتی ہے۔ سرائیکی زبان میں موجود ادب زیادہ تر شاعری کی صورت میں ہے جس میں صوفیا کا کلام نمایاں ہے۔ جدید سرائیکی ادب میں شاکر شجاع آبادی ایک بڑا نام ہے۔ اس کیعلاوہ سرائیکی اسٹیج تھیٹر مزاح کا ایک ذریعہ ہے جو پورے پاکستان میں مقبول ہے۔ سرائیکی موسیقاروں میں عطائاللہ عیسی خیلوی، اللہ دتہ لونے والا، کوثر جاپانی، پٹھانے خاں، عابدہ پروین، طالب حسین در،احمد نواز چھینہ،احمد نواز کارلود اور نعیم ہزارہ بڑے نام ہیں۔ سرائیکی موسیقی خاصی گہری اور خوبصورت ہے اور سننے لائق ہے۔
سرائیکی خطہ کے لوگ عموما شلوار قمیص پہنتے ہیں جبکہ کچھ مرد لونگی اور تہبند باندھتے ہیں۔ سر پر پگڑی یا پٹکا رکھنا شرافت و بزرگی کی علامت ہے۔ پرانے وقتوں میں ننگے سر گھومنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں شلوار قمیص پہنتی ہیں اور سر کو بھوچنڑ یا چنی سے ڈھانپتی ہیں۔ سرائیکی خطے کے لوگ ملنسار، مہمان نواز اور کھلے دل کے لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی خطے سے آیا اجنبی سرائیکی بیلٹ میں خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتا۔
سرائیکی کھیلوں میں گلی ڈنڈہ، پیٹوگرام،اورچھپن چھپائی مشہور ہیں۔ شادیوں پر جاگے، مہندی اور جھومر کا رواج ہے جو کہ اس خطے کے لوگوں کی زندہ دلی کی پہچان ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر ناچتے جوان زندگی کا مزہ دوبالا کر دیتے ہیں۔ سرائیکی خطے میں بلوچ قبیلے ہر میدان میںاپنی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں جن میں لغاری، کھوسہ، چنگوانی، قیصرانی، دریشک،جتوئی ،گورچانی اور مزاری نمایاں نظر آتے ہیںسرائیکی ثقافت زیادہ تر پنجاب کے جنوبی اور شمال مغربی حصے میں موجود ہے اور سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سرحدوں سے ٹکراتی ہے۔ یوں سرائیکی کلچر تمام صوبوں سے منسلک ہے۔
پاکستان بننے سے لے کر اب تک سرائیکی خطے کے لوگ پنجاب کا ایک حصہ بن کر یا یوں سمجھیں پنجابیوں کے چھوٹے بھائی بن کر رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمیشہ سرائیکی خطے کو بنیادی سہولیات اور ترقیاتی کاموں سے محروم رکھا گیا۔ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم شہر چوٹی زیرین اور تونسہ میں ایک بھی ڈھنگ کا ہسپتال نہیں ہے۔ صنعتی ترقی سے بھی اس خطے کو محروم رکھا گیا ہے اور زرعی اصطلاحات نا ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے کسان دن بدن ڈوبتے جا رہے ہیں۔
تخت لاہور کے والیان نے کبھی اچ شریف اور کوہ سلیمان کے گردونواح میں تعلیم، صحت اور صاف پانی کو ترستی عوام کی شنوائی نہیں کی جبکہ لاہورر میں میٹرو ٹرین اور اورنج لائن کے منصوبے جاری ہیں۔ وسائل کی غیرمساوی تقسیم اور سوتیلے رویے سے تنگ آکر سرائیکی خطے سے انقلابی و احتجاجی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں جو اب رفتہ رفتہ ایوان کی ابحاث کا حصہ بن رہی ہیں۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے مگر مجھے سرائیکی علاقے کے زندہ دل اور محنتی لوگوں کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے۔