تحریر : طارق حسین بٹ شان دنیا میں عزت، وقار اور احترام اپنا خاص مقام رکھتا ہے اور انسان اپنے وقار کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔کیا ایک ایسا شخص جو عزت و وقار کی خاطر ذلت و رسوائی سے اپنا دامن داغدار کر لے انسان کہلانے کا حق دار ہے؟دنیا کی دولت اپنی جگہ لیکن اس کا موازنہ انسان کے عزت و وقار سے کبھی نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں میچ فکسنگ ایک سنگین ایشو رہا ہے جس سے نمٹنے کا کوئی سرا اربابِ اختیار کے ہاتھ نہیں آ رہا۔ وہ جتنی کوشش کرتے ہیں وہ اتنا ہی الجھتا جا رہا ہے۔اس ڈور کو مزید الجھانے میں بھارتی سازشیں سرِ فہرست ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے کھلاڑی بھی اس مذموم کھیل میں پیش پیش ہیں لیکن انھیں اس جانب دھکیلنے والی لابی بھارتی ہے۔۔
فاسٹ بائولر محمد عامر کے معاملے میں بھی بھارتی لابی ہی پیش پیش تھی اور پاکستانی کرکٹرز بھارتی دشمنی کے باوجود بھارتی جال میں پھنسنے سے باز نہیں آتے جس کی واحد وجہ دولت کی چکا چوند ہے۔ دولت کی کشش اور اس کی بے پناہ طاقت سے کسی کو سرِ مو اختلاف نہیں ہے لیکن کیا اس کا سارا نزالہ پاکستانی کھلاڑیوں پر ہی گرنا ہے؟کیا پاکستانی اس قدر کردار سے عاری ہو گئے ہیں کہ ان کا ازلی دشمن بھارت انھیں دولت کے چند سکوں کے عوض خرید لیتا ہے؟ہمارے بہادر اور جری فوجی تو اپنے سینوں پر بھارتی گولیوں سے حریت و جانبازی کی انمٹ داستانیں رقم کرتے ہیں لیکن اسی قوم کے کچھ کھلاڑی اپنی قوم کا فخرو ناز چند سکوں کے عوض بیچ دیتے ہیں جو کہ باعثِ شرم ہے؟ابھی تو چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے کئی نامور کھلاڑیوں نے میچ فکسنگ میں سزا بھگتی تھی ۔محمد عامر،سلیمان بٹ اور محمد آصف نے عالمی سطح پر جس طرح پاکستان کی ناک کٹوائی تھی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔سلیم ملک کے میچ فکسنگ سے پوری دنیا آگاہ ہے جبکہ دانش کنیریا بھی میچ فکسنگ کی زد میں ہے۔
جسٹس قیوم ملک کی انکوائری رپورٹ میں کئی نامور کھلاڑی ملوث تھے لیکن انھیں بچانے کی خاطر اس رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھا جس سے میچ فکسنگ کا جن مزید توانا ہوتا چلا گیا۔ اگر قیوم ملک رپور ٹ پر اس وقت مناسب کاروائی کر لی جاتی تو شائد بعد میں آنے والے کھلاڑی اس سے عبرت حاصل کرتے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا جس سے میچ فکسنگ کے گندھ نے کرکٹ کے سارے ڈھانچے کو بوسیدہ کر دیا۔پانچ سال قبل پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف کئے گئے فیصلوں کی سیاہی ابھی مکمل طور پر خشک نہیں ہوئی تھی کہ میچ فکسنگ کا ایک نیا پنڈورہ باکس کھل گیا ہے ۔ پی ایس ایل میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو میچ فکسنگ کی وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے جبکہ محمد عرفا ن اور شاہ زیب کو بھی انکوائری کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کا حکم صادر ہو چکا ہے۔علاوہ ازیں کئی دوسرے کھلاڑی بھی واچ لسٹ پر موجود ہیں۔،۔
Sharjeel Khan and Khalid Latif
پی ایس ایل کا جس طرح دبنگ انداز میں آغاز ہوا تھا وہ بڑا ہمت افزا تھا اور امید بندھی تھی کہ پاکستانی کرکٹ کا سنہرا دور ایک دفعہ پھر واپس آجائیگا اور دنیا بھر کی ٹیمیں پاکستان کا رخ کریں گی لیکن میچ فکسنگ کے نئے سکینڈل نے پی ایس ایل کی ساری دلکشی کو گہنا دیا ہے ۔ دولت کی ہوس میں ہمارے کچھ کھلاڑی اس حد تک اندھے ہو چکے ہیں کہ انھیں دولت کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ان کی نظر میں مذہب،وطن اور اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور چند سکوں کے عوض ملک و قوم کو بیچ دینے پر انھیں قطعا کوئی افسوس نہیں ہوتا ۔یہ ضمیر فروش کھلاڑی دولت کو الہ کے روپ میں د یکھ رہے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں اپنی نجات سمجھتے ہیں ۔وہ دولت کے چند سکوں کے عوض کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔انھیں خبر ہے کہ میچ فکسنگ ایک گھنائونا فعل ہے لیکن اس کے باوجود دولت کی کشش انھیں اس گھنائونے فعل پر ابھارتی رہتی ہے۔ابھی تو چند ماہ قبل جاوید میاں داد نے شاہد آفریدی پر میچ فکسنگ کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں شاہد آفریدی نے بھی جاوید میاں داد پر جوابی الزامات کاڈرا مہ رچا دیا تھا ۔ ایک ہنگامہ تھا جو ہر سو برپا تھا ۔ جاوید میاں داد اس بات پر بضد تھے کہ ان کے پاس شاہد آفریدی کے خلاف ٹھوس شوا ہد موجود ہیں جھنیں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکے گا۔انھوں نے کہا کہ میچ فکسنگ کا ڈرامہ میری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا لہذا میں شاہد آفریدی کو ننگا کر کے چھوڑں گا ۔لیکن اس کے بعد کچھ سینئر کھلاڑی میدان میں نکل پڑے جھنوں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا ۔دونوں کھلاڑیوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں دونوں کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کے خلاف لگائے گئے الزامات واپس لے لیئے اور یوں میچ فکسنگ پر عینی گواہی کا ایک نادر موقعہ ضائع ہو گیا۔
میری ذاتی رائے ہے کہ جان لیوا بیماریوں کا علاج تو اس طرح نہیں ہوا کرتا۔ہر بیماری سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور میچ فکسنگ کا علاج یہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے اور سمجھوتوں سے اسے دبا دیا جائے۔ سوال یہ نہیں کہ چند کھلاڑیوں کا دین و ایمان دولت بن چکا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان کا ذاتی کردار انتہائی پست ہو چکا ہے جو کرکٹ کی تباہی کا موجب بن رہا ہے۔جس قوم کی لیڈر شپ دولت کے انبار لگانے میں لیت و لعل سے کام نہ لے اور قومی دولت کو لوٹنے میںایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہو جائے اس کے شہریوں کے اندر بھی دولت کی ہوس کو روکا نہیں جا سکتا ۔ اگر قوم کی قیادت ایماندار،دیانت دار اور با اصول ہوجائے تو اس قوم کے سپوت بھی اسی راہ پر چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اگر قیادت کا دامن داغدار ہوجائے تو پوری قوم کے افراد کے دامن پر بھی دھبے ہوتے ہیں ۔،۔
ہمارے ہاں آج کل ایک نئی بحث چل نکلی ہے کہ و ہ تمام کھلاڑی جو کسی نہ کسی شکل میں میچ فکسنگ میں ملوث رہنے کی وجہ سے سزا یافتہ ہیں انھیں دوبارہ ٹیم میں جگہ دے دی جائے یا انھیں نظر انداز کر دیا جائے ؟محمد عامر کی واپسی سے میچ فکسنگ کھلاڑیوں کے حو صلے بلند ہو گئے ہیں۔وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ چند سالوں کی سزا کے بعد ٹیم میں جگہ تو مل ہی جاتی ہے لہذا دولت سمیٹنے کا جو نادر موقعہ ہاتھ لگ جائے اسے کیوں ضا ئع کیا جائے؟ابھی تو چند دن قبل سلمان بٹ کو قومی ٹیم کی قیادت سونپنے پر غور ہو رہا تھالیکن یہ تو نئے میچ فکسنگ سکینڈل کا برا ہو جس سے اس طرح کی ساری قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیںاور سرفراز احمد کو ون ڈے ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی ہے۔کیا کسی ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ ایک ایسا کرکٹر جس نے کسی وقت قومی مفادات کا سودا کیا ہو اسے قومی ٹیم کی قیادت لوٹا دی جائے؟بھارتی کھلاڑی محمد اظہرالدین پر میچ فکسنگ سکینڈل کے بعد تا حیات پابندی لگی تھی ۔اسی طرح جنوبی افریکہ کے ہینسی کرونیا کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہوا تھا۔ لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ہمارے ہاں جو جتنا بڑا چور ہے وہ اتنا بڑا ہی پارسا ہے۔کتنے کھلاڑی ہیں جو اس وقت اہم عہدوں پر فائز ہیں جبکہ کسی زمانے میں وہ میچ فکسنگ میں ملوث تھے ۔اس بات کو سارا ملک جانتا ہے کہ وہ چند کھلاڑی پاکستان کی عزت و وقار کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے ہیں اور چند سکوں کے عوض پاکستان کی عزت نیلام کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی انھیں بڑے بڑے عہدوں اور مشاہیروں سے نوازا جا رہا ہے کیونکہ وہ کرکٹ بورڈ کے ڈھنڈورچی بنے ہوئے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی صفوں سے کالی بھیڑو ں کو باہر نکالیں اور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں۔داغدار کردار کے لوگ قوم کیلئے ایک بوجھ ہیں اور ان داغدار لوگوں سے جان چھڑانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔مجھے امید ہے کہ ارب ِ اختیار اب اپنی پرانی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے با کردار ،با اصول اور محبِ وطن کھلاڑیوں کو داغدار کردار کے حامل کھلاڑیوں پر ترجیح دیں گے۔میری نظر میں کرکٹ کو بچانے کا یہی واحد نادر نسخہ ہے جس پر عمل در آمد کرنے سے ملک اور کرکٹ کا نام روشن ہو سکتا ہے ۔ قوم کرکٹ بورڈ کی جانب دیکھ رہی ہے اور اسے اپنے عوامی امنگوں کی پاسداری کرنی ہو گی۔،۔