تحریر : ریاض جاذب کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کا عام طور پر ڈکشنری میں ان کا مطلب واضح نہیں ملتا۔ مگر ایسے الفاظ کسی نسبت یا کسی خصوصیت کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں جیسا کہ ”ریلوکٹا” اس لفظ کا ڈکشنری میں مغوی اور لغوی اعتبار سے کوئی مطلب یا معنی واضح نہیں۔ مگر پنجاب میں عام طو پر یہ لفظ بولا جاتا ہے اس کا استعمال ہوتا ہے۔
دراصل”ریلو” ایک اور لفظ ریہلو کا بگڑ ا ہوا لفظ ہے۔ ریہلو پنجاب میں ٹھیلے یا ریڑھی، گاڑی وغیرہ کو کہا جاتا ہے اور کٹا تو پھر کٹا ہی ہے آپ کٹا کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ طاقت کی علامت بھی ہے” بھینسا” یا کٹا جب ریلو یعنی گاڑی، ریڑھی میں لگایا (جوتا) جائے تو ”ریلو کٹا” کا لفظ مکمل ہوتا ہے ۔ اس میں بھی دلچسب بات یہ ہے کہ عام طور پر ریلوکٹا اس کو کہا جاتا جو ایکسٹرا ہو اور اس سے بظاہر کوئی کام نہیں لیا جارہا مگر ضرورت پڑنے پر اس کو کام پر لگایا جاتا ہے۔
شاید عمران خان نے بھی اس لیے ریلوکٹا کی بات کی کہ ایکسٹرا کھلاڑی پی ایس ایل میں لائے گئے ۔ لیکن اس میں ریلوکٹا کا کیا قصور ہے اس کو جب کھیلایا جائے یا اس سے کام لیا جائے ۔ رانا ثنااللہ صاحب نے بھی خوب کہا کہ عمران آئندہ الیکشن کے ”ریلوکٹا ”ہیں یعنی ان کی ضرورت بظاہر نہیں مگر بارویں کھلاڑی کے طور پر اُن سے کام لیا جاسکتا ہے اس بارویں کھلاڑی سے کب اور کیسے اور کس نے کہاں کام لینا ہے اس کے بارے میں رانا ثناء اللہ نے بیان کیا۔
دوستوں ”ریلوکٹا” کا لفظ کوئی برا یا منفی نہیں ہے بلکہ یہ کچھ خصوصیا ت یا خوبیوں کاحامل ہے ۔ آئندہ الیکشن میں کون کون ریلوکٹے کے طور پر ہو گا اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہو گا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف ہوگا کہ سیاست میں ریلوکٹوں کی بہتات ہے اور کچھ ریلو کٹے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ماتھے پر یہ لکھوایا ہوا ہے کہ کٹا دستیاب ہے۔اور وہ اس بات کی تکرار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مجھے کام بتائو میں کیا کروں میں کس کس کو کھائوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیوی ناٹ ہم نہیں کہتے کہ سیاست کے بارویں کھلاڑی کے طور پر کون کون کھیلے گا اور کون ریلو کٹا ہے اللہ ہی جانے۔۔۔۔