تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ فلسطین میں اذان کی پابندی کے بعد امریکا اور اسرائیل کی دور ٹیکنالوجی کمپنیوں نے پندرہ ارب ڈالر کا ایک معاہدہ کرلیا ہے یہ ’’امریکی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کمپنی ’انٹل‘ اور اسرائیل کی ’موبائل ای ‘‘ میں معاہدہ اسرائیلی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل ہے ، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں معاہدہ طے ہونے پر دونوں کمپنیوں کے سر براہوں کو مبارک باد پیش کی۔
دوسری جانب امریکا کے عالمی مذاکرات کار اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مندوب جیسون گریج بلاٹ نے اپنے دورہ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم سے پانچ گھنٹے طویل ملاقات کی ہے ۔ جس میں یہودی آباد کاری، امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی اور فلسطین اسرائیل مذاکرات کی بحالی کے امکانات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے دوران امریکا میں متعین اسرائیلی سفیر رون ڈرمر بھی موجود تھے۔
عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان فلسطین میں یہودی آباد کاری کے معاملے پر اختلافات موجود ہیں مگر ان اختلافات کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ اس ضمن میں نیتن یاھو کو غرب اردن کے 10 فی صد رقبے پر آباد کاری کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ گرین بلاٹ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے بھی ملاقات کریں گے ۔ محمود عباس سے ملاقات کے دوران بھی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت کی بحالی پر تبادلہ خیال کیاجائے گا۔دوسری جانب اسرائیلی پولیس نے فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس کے شمالی قصبے بیت حنینا میں واقع عرب آرگنائزیشن اسٹڈی سینٹر کے زیر اہتمام قائم مرکز برائے نقشہ جات پر دھاوا بول کر اسے سیل کر دیا ہے۔
مختلف رپورٹس میں انکشاف ہوئے کہ فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل اسلامی تاریخ میں تا قیامت 160اپنی مذہبی اہمیت کے حوالے سے کرہ ارض پر چمکتا رہے گا کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم خلیل اللہ مبعوث ہوئے اور اسی سرزمین میں آسودہ خاک ہیں۔ مسجد ابراہیمی کی تاریخ کا آغاز جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس شہرمیں ایک سیاسی پناہ گزین کی حیثیت سے آمد کے نتیجے میں ہوتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی سال تک یہاں ایک مہمان کی حیثیت سے مقیم رہے ۔ ابراہیم خلیل اللہ کے نام سے نسبت ہونے کی بدولت یہ شہر’’مدین الخلیل‘‘ قرار پایا۔ یوں یہ جگہ آج سے 3800 سال قبل ایک مقدس مقام کا درجہ پانے کے بعد تا قیامت اہل ایمان کے لیے مرجع خلائق قرار پائی۔ مسجد ابراہیمی کے پہلو میں کئی جلیل القدرانبیاء کرام آسودہ خاک ہیں۔ ان میں سیدنا یعقوب اور ان کی اہلیہ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ سارہ، سیدنا یوسف علیہ السلام اور کئی دیگر بزرگ ہستیاں آسوہ خاک ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی طرح یہودی مسجد ابراہیمی پر بھی اپنی مذہبی اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سازش کے تحت ناپاک صہیونیوں نے مسجد ابراہیم جسے حرم ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے کو زمانی اور مکانی اعتبار سے مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
Ibrahimi Mosque
مسجد ابراہیمی کئی عشروں سے ناپاک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط میں ہے ۔ یہودی آباد کار باقاعدگی کے ساتھ مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے یہاں آتے ہیں۔ مگر عبادت محض ایک بہانہ ہے ۔ دراصل یہودی اس مقدس مقام کے بے توہین آمیز انداز میں بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں اس سے یہودیوں کی منافقت اور بدنیتی عیاں ہوتی ہے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہودیوں نے مسجد ابراہیمی کو انتہا پسندوں، فوجیوں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے لیے مباح قرار دے رکھا ہے۔ یہودی بلا روک ٹوک یہاں داخل ہوتے ۔ تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرتے ، مسجد میں گھس کر سگریٹ اور شراب نوشی کرتے ، رقص و سرود کی محافل منعقد کرتے ، موسیقی اور ڈھول باجے بجاتے ، شادیوں اور ختنوں تک کی تقریبات یہاں منعقد کرکے مقدس مقام کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔
یہودی شرپسند مسجد ابراہیمی میں داخل ہوتے وقت جوتے اتارنا بھی گورا نہیں کرتے ۔ مقامی فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں نے مسجد ابراہیمی کے ایک بڑے حصے پر تسلط جما رکھا ہے ۔ فلسطینیوں کے لیے نماز کی ادائی کی جگہ انتہائی محدود ہے مگر ہفتے کے روز اوریہودیوں کی تلمودی مذہبی عیدوں کے مواقع پر یہودی پوری مسجد پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ مسجد ابراہیمی کے کئی اہم تاریخی حصے ہیں جو مقدس ہستیوں اور بزرگان دین کے ناموں سے منسوب ہیں۔ مقام یعقوب، مقام ابراہیم، مقام یوسف مسجد ابراہیمی کے نصف حصے پرمشتمل ہیں۔ان مقامات پر فلسطینیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ مقام اسحاق مسجد کے محراب سے متصل ہے ۔ یہ جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے۔
یہیں پر حضرت اسحاق اور ان کی اہلیہ آسودہ خاک ہیں۔ مقام اسحاق کے علاوہ الجاولی مسجد مسلمانوں کی نماز کے لیے مختص ہیں۔ مگر ہفتے کے روز اور یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر فلسطینی مسلمانوں کو یہاں پر جانے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الشیخ خفظی ابو اسنینہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے مسجد ابراہیمی کو یہودی شرپسندوں کے لیے مباح قرار دے رکھا ہے ۔ کسی بھی چھوٹے بڑے مذہبی موقع پر پوری مسجد سیل کرکے فلسطینیوں کو وہاں جانے سے روک دیا جاتا ہے ۔ سنہ 1994ء میں جب ایک یہودی دہشت گرد نے مسجد میں گھس کر نماز فجر میں مصروف مسلمانوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور 29 نمازیوں کو شہید کیا تو اسرائیل نے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے ’شمغار‘ نامی ایک کمیشن تشکیل دیا۔ یہ کمیشن دراصل فلسطینی نمازیوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے نہیں بلکہ مسجد کی یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کیلئے تھا۔ اسی کمیشن نے مسجد کا ایک بڑا حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا۔
یہودی مذہبی تہواروں کی آڑ میں مسجد ابراہیمی کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر ہم مسلمان مسجد میں نماز، ذکرو اذکار، اسلامی ثقافتی، سرگرمیاں، دروس قرآن اور دروس احادیث کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو مسجد میں آنے سے روکنے کے لیے طاقت کے مکروہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے ۔ نام نہاد سکیورٹی وجوہات کی آڑ میں فلسطینیوں کو مسجد ابراہیمی میں عبادت کی ادائی کے لیے آنے سے روک دیا جاتا ہے ۔مفتی الشیخ ماھر شوکت مسودی کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی طرح مسجد ابراہیمی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پوری مسلم امہ پر عاید ہوتی ہے ۔وہ بھی حسب موقع مسجد میں پہنچے تاکہ مسجد ابراہیمی کی تنہائی کا احساس نہ ہو اور یہودی غاصبوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ فلسطینی مسلمان مسجد ابراہیمی سے ناطہ نہیں توڑیں گے۔ الشیخ مسودی کا کہنا ہے کہ مسجد ابراہیمی کو خالی چھوڑنا یہودیوں کو اس پر قبضہ جمانے کا موقع فراہم کرنا اور اسے یہودیت کے نرغے میں دینے کے مترادف ہے۔ خدا نخواستہ مسلمانوں نے مسجد ابراہیمی کو تنہا چھوڑ دیا تو یہودی شرپسند اسے معبد میں تبدیل کر سکتے ہیں۔