تحریر : انجینئر افتخار چودھری نوجوان منسٹر رضا گیلانی کو علم ہی نہیں تھا کہ اس نے بڑھوں کے کس چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے جو ان سے منہ سے حجاب کی موافقت میں نکلنے والے چند الفاظ پر بھڑک اٹھے گا۔ وہ ایچی سن اور امریکہ کی یونیورسٹی سے پڑھ لکھ کر بھی دیسی پاکستانی مسلمان ہی رہا جس نے طالبات کو حجاب کی طرف راغب کرنے کے لئے پانچ فی صد حاضری سے استثناء کی بات بھی کر دی یہ کوئی نئی بات نہیں یونیورسٹی آف آروزونا کے ایک پروفیسر اس قسم کا للچ اپنے ان نوجوان طلباء کو بھی دے چکے ہیں وہاں شرط تھی کہ ان کے دورانئے میں جو طالب علم اپنے جسم کے بال نہیں مونڈھے گا اسے وہ اضافی نمبر دے گا۔
بات تو پنجاب کے منسٹر نے کر دی لیکن جو میڈیا اس پر برسا اسے دیکھ کر یاد آیا واقعی نوٹ لگے ہوئے ہیں پاکستان کی تما م سیاسی پارٹیوں کی خواتین جنہوں نے مدتوں سر کو نہیں ڈھانپا تھا انہیں لائن میں لے کر وزیر صاحب کی وہ گت بنائی گئی کہ بیچارے خود پردے میں چلے گئے کچھ ہی دیر میں وزیر اعلی کی طرف سے بیان آ گیا کہ حجاب کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حجور ہمیں تو پہلے سے ہی علم تھا کہ آپ اس کی مخالفت کریں گے مگر قیام سعودی عرب کے دوران آپ کی فیملی کی خواتین حجاب کرتی رہیں کیا وہ مجبوری تھی یا اللہ سے لگائو تھا؟وزیر موصوف کی جو ہو گی وہ تو ایک دو روز میں پتہ چل جائے گا ۔مجھے تو حیرانگی ہوئی کہ نجی چینیلز کچھ اس طرح سے چنگاڑنا شروع ہوئے کہ الحفیظ الاماں انہیں کیا ہو گیا۔ایک موصوفہ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ کل کو مردوں کو داڑھی رکھنے پر اضافی نمبر ملیں گے۔ویسے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان زمین پر وہ نہیں ہے جو ٹی وی پر ہوتا ہے۔نائن الیون کے بعد جتنی داڑھیاں رکھیں گئیں وہ اس سے قبل کبھی نہ دیکھی گئیں ۔مرد کے چہرے پر داڑھی اس کا حسن ہے۔عورت کا لفظی معنی ہی پردہ ہے۔یہاں بات جبر کی نہیں ہے لیکن اللہ نے خواتین کو جو کشش دی ہے اور جو زینت بخشی ہے وہ اس کے خاوند کے لئے ہے۔ویسے کبھی آپ نے غور سے دیکھا ہے کہ جو مستور ہیں وہی خوبصورت ہیں اکثر بے پردہ خواتین جنہیں اللہ نے خوبصورتی بخشی بھی ہے ان جیسی نہیں ہوتیں جو پردے میں رہتی ہیں۔
سوچ رہا تھا کہ یہی پاکستان تھا جس کے لئے باپردہ خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ ہو کر جد و جہد کی تھی ۔پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ ہم تو یہی سنتے آ رہے تھے۔سچ پوچھیں کچھ دنوں سے لبرل فاشست نعرہ لگا کے میدان میں آ گئے ہیں بھینسہ موچی حوالدار والے سر عام آقاء نامدار کی تضحیک کرتے رہے ایک جج نے ان کی گرفت کا حکم دیا تو پتہ چلا سارے اپنے مربیوں کے پاس پہنچ چکے ہیں۔
Pakistani Media
پنجاب کے وزیر اس وقت حجاب کی بات کر رہے تھے جب ان کے محترم قائد اللہ بھگوان خدا کو مساوی حقوق بانٹ رہے تھے۔انہوں جوش جذبات میں ایک بار پہلے بھی کہا تھا کہ ہم بھی اسی رب کو مانتے ہیں جس کوآپ بھی مانتے ہیں۔یہ بات سکھوں کے درمیان انڈیا میں کی تھی۔اس وقت ایک مرد جری تھا جس کا نام مجید نظامی تھا اس نے میاں صاحب کی خوب مذمت کی تھی کہتے ہیں ہن کتھوں لیائیے لب کے اک وارث شاہ جیا ہور۔اب تو جو بچے ہیں نوٹ گنتے ہی نہیں تھکتے اشتہاروں کے بھوکے صحافت کے تاجدار ۔اب میاں صاحب کو کون ٹوکے گا ایک فیس بک ہے اور ہم جیسے لولے لنگڑے لکھاری کل یہ بھی بند ہوئی تو پرنٹ میڈیا کے ٹھگوں کے سامنے ہم بھی کاسہ لئے پھر رہے ہوں گے۔ان کی مرضی چھاپیں نہ چھاپیں۔
عورت کو آزادی اور بے پردگی کے نام پر ایک مدت سے سڑک پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک مدت سے ہی اللہ کے بندے اسے گھر کی ملکہ بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔میں دنیا دیکھی ہے آزادی کے نام پر عورت کو ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے۔ایک ہماری عورت ہے جو گھر میں رہ کر گھر جنت بناتی ہیں ۔برابری کے نام پر میں نے دیکھا کہ ان سے مردوں سے بھی زیادہ کام لیا جا رہا ہے جہاں اس کی نسوانیت کی تذلیل کی جاتی ہے۔پاکستان جیسے اسلامی ملک میں میڈیا کی بے باکی دیکھ کر حیران بھی ہوا اور پریشان بھی پریشانی تو اللہ کے بندے ختم کر ہی دیتے ہیں جو گھروں میں رہ کر بچوں کو دینی تعلیم دیتے ہیں مدارس کالجوں میں علم حاصل کرتے ہیں۔اللہ کے نام پر حاصل کردہ ملک کو ترکی بنانے والو جائو وہاں جا کر دیکھو کہ وہ لوگ مصطفی کمال پاشا کی ترک قومیت اور عرب دشمنی میں کدھر نکل گئے تھے اور اب وہ کس طرح تیزی سے اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
آزادی کے نام پر جو خواتین پاکستانی عورتوں کو سڑک پر لانا چاہتی ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ ابھی اس ملک میں اللہ اور اس کے رسول کے چاہنے والے موجود ہیں جو انہیں ترقی کے برابر مواقع دیں گے دفاتر میں کام کرنے کی بھی اجازت ملے گی لین جو خواب بیرونی ایجینڈوں پر چل کر اس ملک کا خاندانی نظام تباہ کرنے کا ہے وہ شائد پورا نہ ہو سکے۔بے لگام میڈیا بھولے منسٹر کی نوکری لے ڈوبے گا۔لیکن اس سے نقاب بنانے والی بہت سی فیکٹریاں بنیں گی جسے کوئی بے رونق و بیزار چہرے والی عورت روک نہ پائے گی۔ اسلامی اقدار کا تحفظ کیجئے دنیا فانی ہے۔