تحریر : نسیم الحق زاہدی موضوع کالم پر آنے سے پہلے چند روز قبل کسی ضروری کام سے چونگی امرسدھو جارہا تھا کہ پیچھے سے ایک دم سارن کی آوازیں آناشروع ہو گئیں فوراًسڑک کے ایک طرف ہوگئے کہ خدا جانے کون سا سیریس مریض ہے یا کسی کا جنازہ ہے مگر ایک شخص جو بائیک پر تھا وہ ایک دم راستے سے پیچھے ہٹا تو ایک پولیس والے نے چلتی پولیس کی گاڑی سے اسے گھونسا مارا وہ گرتے گرتے بچا بعد میں پتا چلا یہ ہماری غریب عوام کا جنازہ ہے یہ ہمارے کسی خادم (عوامی نمائندہ )کاپروٹوکول ہے ورلڈ کالمسٹ کلب کے روح رواں بانی وصدر عزیزم محمد ناصر اقبال خان نے گذشتہ روز الحمرہ ادبی بیٹھک میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے زیر اہتمام ایک تقریب کا انقعاد کیا جس میں دختر ملت مسلمہ آپی آسیہ اندرابی کا ٹیلی فونک خطاب تھا انکے کرب الم اذیتوں کا ان کی زبانی سن کر ایک لمحے کو آنکھیں نم تو ہوئیں مگر آج ہماری ساری عبادات روح سے خالی رسومات بن کر رہ گئیں ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے شوہر کس قدر دردناک زندگی بسر کر رہے ہیں پابندسلاسل کی اذیتوں کا سامنا کر رہے ہیں ۔
انہوں نے پاکستان کی حکومت اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے استدعا کی ہے کہ خدا راہ مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی اختیار کریں کشمیری خود کو اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں کشمیر اب خالی باتوں سے آزاد نہیں ہوگا اس کے لیے پاکستان کو یہ بات پوری دنیا کو بتانا ہوگی کہ وہ حصول کشمیر کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کا کشمیرپر موقف واضح ہو چکا ہے کہ اس نے کشمیرکو بھارت کا اندونی مسئلہ قرار دے دیا ہے آپی آسیہ اندرابی نے مسلمانوں کو اپنی مدد کے لیے پکارا تو سر شرم سے جھکا بھی اور دل نے یہ کہا بھی کہ ان کو کہوں کہ اب مائیں محمد بن قاسم کو جنم نہیں دیتیں جو ایک مسلمان بہن ‘بیٹی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عرب کے تپتے صحرائوں کو روندتا ہوا راجہ دہر کی سلطنت کو اپنے گھوڑوں کے پائوں کے نیچے کچل ڈالے آپ تو دیار میں بیٹھ کر ہمیں مدد کے لیے پکا ر رہی ہیں۔
ہمارے پاس تو تڑپتے ہوئے زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کی کوئی سہولت نہیں یہ سابقہ وزیر اعلیٰ سندھ کا بیا ن ہے لیکن مرے ہوئے بھٹو کی سالگرہ منانے کے لیے 25ملین کے فنڈز ہیں آپ کہتی ہیں کہ کشمیر میں مسلماں مائوں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں آپ کو بتا دیں کہ پاکستان میں حجاب پہننے کے جرم میں لاہور ”کنیرڈ”کالج کے فنکشن میں ایک مسلمان بیٹی کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے یہاں ہمیں مائوزے’کارل مارکس’لیلن کے پیروکار اسلام کی باتیں بتاتے ہیں اور اسلام کو قیود کا مذہب قرار دیتے ہیں اور اسلامی سزائوں کو ظلم قرار دیتے ہیں۔
Isar Rana
یہاں ایک پروفیسر ایک قوم کا معمار کہتا ہے کہ پاکستان نے ایک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا اور میزائل کا نام ”ابابیل ”رکھا گیا ہے ابابیل کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے اور یہ مسلمانوں میں شدت پسندانہ سوچ کو عام کرے گا میری حکومت پاکستان سے گذارش ہے کہ اس میزائل کا نام تبدیل کرکے ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ”سینٹ ویلنٹائن میزائل ”رکھا جائے تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ہم محبت کرنے والی ایک روشن خیال اور ترقی پسند قوم ہیں یہاں پر ایک خود کو انسانی حقوق کی علمبراد سمجھنے والی دیسی لبرل خاتون کہتی ہے کہ جن جج صاحبان نے ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگائی ہے انکو عدالتیں چھوڑ کر مسجدوں کے امام بن جانا چاہیے آپی آسیہ آپ کہتی ہیں کہ وہاں آپ کو غلام سمجھا جاتا ہے تو ہم آزاد ملک میں آزاد کب ہیں؟۔
ہم نے ابھی تک غلامی کو نہیں چھوڑا فرق بس یہ ہے کہ آپ نظام کفر کے تحت غلام ہیں اور ہم نا انصافی کی بدولت سقراط نے صدیوں پہلے یہ الفاظ ہمارے لیے ہی کہے تھے ”اگر آسمان سے حریت کی بارش ہو جائے تو غلامی پسند چھتریاں لے کر نکلیں گے”آپ نے کہا کہ پاکستان کے اندر بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت اور محب وطن محسن پاکستان حافظ محمد سعید کی نظر بندی سے کشمیروں کے دل دکھے ہیں یہ تو کچھ نہیں خواجہ آصف نے جرمنی کے شہر میونخ میں عالمی دہشت گردی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”حافظ محمد سعید معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔
حافظ محمد سعید معاشرے کے لیے خطرہ تو ہیں کیونکہ وہ ایک آزاد اور اسلامی معاشرہ کی بات کرتے ہیں وہ غلامی کے کشکول توڑنے کی بات کرتے ہیں وہ بلا امتیاز رنگ نسل ومذہب انسانیت کی فلاح کا کام کرتے ہیں رسول کریم ۖنے فرمایا کہ” سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے عرش کا سایہ دے گا جس دن اس کے سوا دوسراکوئی سایہ نہ ہو گاان میں سے پہلا شخص انصاف پرور حکمران ہے”یہاں مریض فرشوں پر اور ڈاکٹر نرسوں پر مرتے ہیں یہاں داڑھی والے افراد کو دہشت گر د اور مساجد کو دہشت گردی کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے یہاں قانون امیر کے در کا غلام ہے یہاں تھانے سرمایہ داروں کی ذاتی عدالتیں ہیں جہاں پر وہ بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔
World Columnist Club
یہاں ملک لوٹنے والوں کو پروٹوکول اور پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں اور روٹی کے چور کو سولی پہ لٹکا دیا جاتا ہے آپ کو تو وہاں ادویات میسر نہیں یہاں بھی سونے کے زیورات اور گھرکے کاغذات رکھواکر بھی میڈیسن لینے کی سہولت موجودہے یہاں پر ایک ہندئو اوم پوری مر جائے تو ہمارا میڈیا بریکنگ نیوز چلا چلا کر پاگل ہو جاتا اور چند سرکاری اشتہاری دربای ملاء اس کو مسلمان کہنے پہ تل جاتے ہیں اور توہین رسالت مآبۖ کرنے والے بلاگرز کی حمایت پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں یہاں موم بتی مافیا ہے یہاں فحاشی پر ایوارڈ ملتے ہیں یہاں مجاہد اسلام شہید اسلام برہان وانی کی شہادت پر میڈیا کوریج کی بجائے شرمین عبید کے آسکر ایوارڈ کی خبربریکنگ نیوز کے طور پر چلائی جاتیں ہیں یہاں شعور کی جگہ شیر نے اور زندوں کی جگہ مردوں نے لی ہوئی ہے بالکل اسی طرح جس طرح سگریٹ کی ڈبی پر کینسر والی تصویر کے باوجود لوگ سگریٹ پینا نہیں چھوڑتے اسی طرح ایک کرپٹ لیڈرکی حقیقت جاننے کے باوجود جاہل لوگ اپنے لیڈر کی حمایت کرنا نہیں چھوڑتے آپی آسیہ اندرابی ہم مدت سے کشمیر کے حالات پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں۔
آج کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں میں جذبہ بدر پیدا کریں گے تو ان سے معذرت کے ساتھ آپ بائیس کڑور میں سے ویسے تین سو تیرہ نہیں لا سکتے وہ جذبہ تو دور کی بات کی ان مقدس ہستیوں کی خاک پا جیسا بھی نہیں لا سکتے اور جس دن وہ جذبہ پیدا ہو گیا اس دن تم پوری دنیا پر حاکم ہوگئے آپی آسیہ انتہائی معذرت کے ساتھ ہم زبانی جمع خرچ تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ہم سے امیدیں وابستہ کرنا مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ہو گا وہ اس لیے کہ ہم خود کو بدلنا نہیں چاہتے اوراللہ تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جن کو احساس نہ ہو خود اپنے بد لنے کا سقراط کہتا ہے کہ ”جو شخص خود اپنے اوپر حکومت کرنا نہیں جانتا ۔یاد رہے وہ ہمیشہ دوسروں کا غلام رہے گا۔
”میں سینئرز کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں اور دانشوروں سے ذرہ ہٹ کے لکھتا ہوں جھوٹی امید سے بہتر سچ بول دینا ہوتا ہے آپی آسیہ اندرابی حکومت پاکستان کشمیر کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے کچھ خبر نہیں مگر بطور ایک نام کا مسلمان ہونے کے صرف اتنا ضرور ہے کہ آپ کا درد کا کچھ احساس ضرور ہے کیونکہ خود اپنے گھر میں اتنے غیر محفوظ اور زخم خوردہ ہیں کہ ہمیں اپنے زخموں کا درد نہیں ہوتا دوسروں کی تکلیف خاک محسوس ہو گی۔۔۔