تحریر : خرم انیق احمد خان ایک صاحب جو کہ اپنی زندگی ہمیشہ عیش میں گزارنے کے عادی تھے کبھی کوئی ایسا کام کرنا پسند نہیں کرتے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کی شخصیت اور رہن سہن پر شک کیا جائے۔ سادہ کھانا,ہلکا کپڑا پہننا اور اپنے سے کم تر لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اپنی شان میں گستاخی سمجھتے تھے۔۔۔ اگر اتفاق سے کوئی کام ایسا کرنا پڑ بھی جاتا کہ جو ان کی شان کے مطابق نہ ہوتا تو اسے حتی الامکان کرنے سے گریز کرتے, اپنے امیری پر فخر کرتے ہوئے وہ صاحب ہمیشہ ایک ہی بات کہتے “اگر میں یہ کام کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے”۔ ان صاحب پر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی ترقی زوال میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور ان کو ایسے لوگوں سے مدد مانگنی پڑی جن کو وہ دیکھنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان کی طرح زندگی گزارنے پر اس بات کا احساس ہوا کہ لوگ کہتے ضرور ہیں مگر صرف وہی جو آپ خود سوچتے ہیں۔ اس بات کا ڈر اور خوف رکھنا کہ “لوگ کیا کہیں گے” ہی لوگوں کو کچھ کہنے پر مجبور کرتا ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ کچھ کر دکھانے کے لئے لوگوں کو کہنے پر مجبور کرنا پڑتا ہے اور سننا بھی پڑتا ہے۔حالات حاضرہ پر نظر دوڑائی جائے تو ایسے بہت سے لوگ دیکھنے کو ملیں گے جو صرف اس وجہ سے ترقی نہیں کر پاتے کہ ان کے اس عمل سے لوگ کیا کہیں گے یا سوچیں گے۔ اس ایک جملے نے ان کے دماغ پر اتنا گہرا اثر رکھا ہوتا ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ ان کے ارادے پر غالب آ جاتا ہے اور وہ کام ہونے سے پہلے ہی اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔اس بات کا خوف انسان کو اندر سے کمزور بنا دیتا ہے, وہ ہمیشہ کیلئے اسی احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور جن لوگوں کی باتوں سے وہ گھبراتا تھا وہی لوگ وہ کام کر کے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے میں تو یہ جملہ بہت مختصر ہے لیکن اس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ اس کا معنی کیا ہیں؟ اکثر لوگ اس کا مطلب بغیر سوچے سمجھے بظاہر جملہ پڑھ کر لیتے ہیں۔ اگر اس کے اثر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے معانی سمجھنے کی کوشش کی جائے تو انسان تنزلی کی طرف نہیں بلکہ کامیابی کی طرف جانا شروع ہوجائے۔ اگر اس جملے کو سوالیہ طور پر لینے کی بجائے اس سے سبق حاصل کیا جائے کہ آخر لوگ کیا کہہ لیں گے؟ تو انسان کو اس سے بے حد فائدہ ہو گا۔لوگ ہمیشہ وہی کہتے ہیں کہ جتنی وہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ متعلقہ انسان کے کام کو بنا دیکھے سمجھے بات بنانا تو لوگوں کا مشغلہ بن گیا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اپنے وقت کو گزارنے کے لئے کی گئی بات کسی دوسرے انسان کی زندگی برباد کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان پر اس چند لفظی جملے کا اتنا اثر کیوں ہے؟ موجودہ سائنسی اور باشعور دور میں بھی انسان ایسی باتوں کا شکار کیوں ہو جاتا ہے؟ اس بات کا اثر لینے میں اگر دیکھا جائے تو انسان کا خود بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
اپنی زندگی میں عارضی طور پر رہنے والے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے اپنی مستقل رہنے والی زندگی کو برباد کرنا انسان خود پسند کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کی بات مان کر فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار سوچ لینا چاہیئے,آیا اس شخص کی بات پر عمل کرنا بہتر بھی ہے یا نہیں۔۔۔انسان اکثر پریشان رہتا ہے کہ کس شخص کی بات کو درست مان کر چلے اور کس دوست کو نظر انداز کرے۔ کبھی انسان درست مشورہ اپنا لیتا ہے تو کبھی غلط مشورہ حاصل کر کے ناکامی اپنے مقدر میں لکھ لیتا ہے۔ اس بات کو جان لینا کہ کون آپ کا صحیح خیرخواہ ہے آپ کی پریشانیوں کو کافی حد تک ختم کر دیتا ہے کیونکہ آپ کو مدد کرنے والا شخص مخلص ہوتا ہے۔ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس کا اثر انسان پر بے شک ہوتا ہے۔ لیکن اس کا اثر خود پر نہ لینا ایک مضبوط انسان کی نشانی ہوتی ہے اور وہی کامیابی کے راستے پر چلتا ہے۔ آج کے دور میں ہر انسان دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کو غلط راستہ دکھا کر پیچھے کر دیا جائے اور خود آگے بڑھا جائے۔ ایسے لوگ بظاہر تو آپ کے دوست ہو سکتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی بیان کر رہی ہوتی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کا دشمن کون ہے۔۔ ایک ایسا دوست جو کہ صرف اپنے مطلب کے لئے آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو ہمیشہ غلط مشورہ دینا چاہتا ہو وہی آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ درست دوست کا انتخاب کرنا بہت بڑی خوبی ہوتی ہے اور جو لوگ یہ صلاحیت رکھتے ہیں وہ زندگی کا ہر مشکل پہلو آسانی سے گزار لیتا ہے۔ اور جو شخص یہ نہیں کر پاتا وہ اکثر مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ دوست ہی وہ شخص ہوتا ہے جس سے انسان اپنی مشکلات کا ذکر کرتا ہے اور غلط دوست ہمیشہ انسان کو یہی کہے گا کہ اس عمل سے تم پر لوگ باتیں کریں گے لہذا اس کو ترک کر دینا ہی درست رہے گا۔
خود کو غلط شخص پر اعتماد کرنے سے بچائیں۔۔۔۔انسان کا سب سے بڑا خیر خواہ انسان خود ہوتا ہے کیونکہ وہ کبھی خود کے لئے کسی ایسی چیز کا انتخاب نہیں کرتا جس سے اس کو نقصان پہنچے۔ خود کو پہچان لینا ایک بہت بڑی خوبی ہے اور جو شخص اس میں کامیاب ہو جائے وہ کسی صورت دوسرے لوگوں کی باتوں میں نہیں آتا۔ اور نہ ہی ان کا اثر رکھتا ہے۔
Myself
انسان کے خود کے علاوہ اگر کوئی اس کا خیر خواہ ہوتا ہے تو وہ ہیں اس کے والدین۔ والدین کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہیں گے بلکہ ہمیشہ انہیں درست مشورہ دیں گے۔ اور ان کی دعا کے بغیر کوئی کام ممکن بھی نہیں ہوتا۔ ان کی بات پر عمل کر لینا انسان کو بہت سی مشکلات سے نکال دیتی ہے۔ موجودہ دور میں کچھ حاصل کرنے کیلئے انسان کو دوسروں کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں مگر کامیاب وہی ہوتا ہے جو ان سب کے باوجود اپنی محنت جاری رکھتا ہے۔