تحریر : میر افسر امان پچھلے سال سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے میں منعقدہ یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کسی عرب دانشور نے تاریخ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ایک عرب سیاح نے ہند کے اپنے سفر کے دوران جب ہندوئو ں اور مسلمانوں کے عقائد اور رہن سہن کا مشاہدہ کیا تو اپنی تجربے کی بنیاد پر تحریر کیا کہ یہ دونوں قومیں کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ ایک عرصہ گزر گیا مسلمان حکمرانوں کی ہندوئوں سے رواداری، اسلامی دنیا سے آئے ہوئے صوفی بزرگوں کی اسلام کے پر امن، درگزر اور ا نسانیت سے محبت کے فلسفے کی وجہ سے کروڑوں ہندو مسلمان ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہند پر انگریزوں نے تجارت کے بہانے مکاری سے قبضہ کر لیا۔ کیونکہ مسلمانوں ہند پر ایک ہزار سال حکمران رہے تھے اور عوام کے اندر ان کی جڑیں تھی۔اس خدشہ سے کہ یہ جنگجو قوم پھر ان سے اقتدار چھین نہ لے اس کا زور ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے مسلمانوں کو سخت سزائیں دیں۔
کسی کو کالا پانی ،جزائر انڈمان میں قید رکھا گیا۔ کچھ کو توپوں کے سامنے کھڑے کر کے شہید کر دیا۔ اُن کی زمینوں پر قبضے کر لیے ۔اپنی حکمرانی کے دوران مسلمان اکثریت والے علاقوں میں انڈسٹری نہیں لگائی۔ زیادہ تر کام ہندوئوں کی اکثریت والے علاقوں میں کیے۔ مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسیاں اختیار کیں۔ ہندوئوںکو آگے آگے رکھا اور مسلمانوں کو اپنے پورے دور حکمرانی میں دبائے رکھا۔ انگریز ہند پر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ آخر میں ہند چھوڑنے پرمجبور ہوئے۔ شروع شروع میں مسلمانوں اور ہندوئوں نے مل کر کانگریس کے پلیٹ فارم سے آزادی کی تحریک چلائی۔ شروع میں مسلمانوں کے مسیحا قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی کانگریس میں رہ کر ہند کی آزادی کی جد وجہد کی۔ مگر آخر میں ہندوئوں کے عقائد اور مسلمانوںکے ساتھ تعصب کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے وہی بات سمجھ میں آئی جو ہم نے اوپر عرب سیاح کے حوالے سے بیان کی ہے ۔قائد اعظم نے ثابت کیا کی مسلمان ہند میں اقلیت نہیں بلکہ ایک مکمل قوم ہیں۔
قائد اعظم نے برصغیر کی تقسیم کے وقت دو قومی نظریہ پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہندو بت پوجتے ہیں مسلمان صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں مسلمان اس کو ذبیح کرتے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کو ناپاک سمجھتے ہیں ایک ساتھ کھانا نہیں کھاتے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے ہیروز اور دشمن الگ الگ ہیں وغیرہ ۔ قائد اعظم نے دو نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔ برصغیر کے کونے کونے میں پاکستان کا مطلب کیا ” لا الہ الا اللہ” بن کے رہے گا پاکستان ۔لے کے رہیں گے پاکستان کے نعرے بلند ہوئے۔ تحریک پاکستان کے دوران، ١٥ نومبر١٩٤٢ء میں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم اسٹوڈنس فیڈریشن کے اجلاس میں اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ” مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیسا ہو گا۔پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہو سکتا ہوں ہو گا۔مسلمانوں کے طرز حکومت آج سے تیرا سو سال پہلے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد اللہ قرآن مجیدہماری راہنمائی کے لیے موجود ہے۔
قیامت تک موجود رہے گا” صاحبو! ٢٣ مارج ١٩٤٠ء کو منٹو پارک لاہور میں پورے ہند کے مسلمان جمع ہوئے تھے۔ اُ س وقت کی شاتر انتظامیہ نے افوائیںپھیلائی تھیں کہ اس پروگرام کو منسوخ کر دیا جائے کیوں کہ لاہور میں لاء اینڈ آڈر کا مسئلہ ہے۔ جبکہ گانگریس نے دہلی میں ہند کی تقسیم کے خلاف پروگرام رکھا تھا۔ ان حالات میں ٢٣ مارچ کو قرارداد لاہور پیش ہوئی۔ ٢٤ مارچ کو اسے شیر بنگال نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا جسے منظور کیا گیا۔ مگر قائد اعظم نے اس کی تاریخ کو ٢٣ مارچ ہی رکھا۔ جسے بعد میں قرارداد پاکستان کہا گیا۔ قرادادد مقاصد ١٢ مارچ ١٩٤٩ء کومنظور ہوئی۔
پاکستان کے آئین ١٩٥٦ء اور ١٩٧٣ء کے اسلامی آئین کا حصہ بنی۔ ١٩٥٦ء کے اسلامی آئین کو ٢٣ مارچ کو نافذ کیا گیا۔ پاکستان١٥ اگست ١٩٤٧ء کو وجود میں آیا تھا مگر قائد اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت نے یوم پاکستان ١٤ اگست کو منانا منظور کیا۔ اس طرح پاکستانیوں کے لیے مارچ کا مہینہ ایک یاد گار اور ٢٣ مارچ پاکستان کی اساس کا دن ہے۔ڈکٹیٹر ایوب خان نے مار شل لاء لگا کر ١٩٥٦ء کے آئین کو منسوخ کر دیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی لیڈر شپ نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ١٩٥٦ء کے آئین کو منظور کیا تھا۔ مگر ڈکٹیٹر ایوب خان نے اس کو منسوخ کیا اس وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ پاکستان سے ہوا۔ ایٹمی اور اسلامی پاکستان دشمنوں کی نظر میں کھٹکتا رہتا ہے۔ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی بنائی ہوئی مکتی باہنی کی مدد سے افراتفری پھیلا کر قومیت اور حقوق کے نام سے ہمارے بنگالی بھایوں کو اُکسا کر ہم سے علیحدہ کر دیا۔ کراچی میں بھی لوگوں کو حقوق ،لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر اُکساتا رہا ہے۔ ان کو مالی اور اسلح سے مدد بھی دیتا رہا ہے۔ اس کا انکشاف بھارتی جاسوس کلبھوشن دیو نے اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں کیا ۔بھارت کا دہشت گرد وزیر اعظم مودی اپنے یوم جمہوریہ پر اعلان کرتا ہے کہ مجھے بلوچستان اور گلگت سے مدد کرنے کے لیے ٹیلیفون کال آ رہی ہیں۔
بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔امریکا بھی افغانستان کی جنگ پاکستان میں لے آیا ہے ۔ پاکستان کو افغان طالبان سے لڑنے کے ک لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ افغان طالبان اپنی سرزمین سے قابض فوجوں کو نکانے کے لییے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو امریکا کے دبائو میں آکر افغان طالبان سے ہر گز جنگ نہیں کرنے چاہیے۔ امریکا اور اس کی ٤٨ ملکوں کی فوج طالبان کو شکست نہیں دے سکی۔ افغانستان کا حل صرف اورصرف پر امن مذاکرات ہیں۔ جو طالبان خود امریکا سے کریں ۔ پاکستان صرف دونوں کی مدد کر سکتا ہے۔ امریکا کی شروع کی گئی دہشت گردی میںدنیا میں سب سے زیاد ہ پاکستان کا نقصان ہوا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی ٢٣ مارچ کو یوم پاکستان یعنی اساس پاکستان منا کر اس مثل مدینہ ریاست کی تجدید کا دن مناتے ہیں۔ اللہ ہمارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم و دائم رکھے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان