تحریر : جنید رضا دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور سر بلندی کے لئے اللہ تعالی نے اپنے محبوب پیغمبر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر ان کی معیت کے لئے ساری انسانیت میں سے چن کر صحابہ کرام کی جماعت عطا فرمائی، انہی مقدس شخصیات میں سب سے پہلے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن عشق سے وابستہ ہوئے انہیں دنیاامام الصحابہ ، جانشین محمدصلی اللہ علیہ وسلم ،سسر رسول، خلیفہ رسول، خلیفہ اول ،خلیفہ بلا فصل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام نامی اسم گرامی سے جانتی ہے، آپ کا نام عبداللہ اورکنیت ابوبکر ہے ، القاب صدیق وعتیق ہیں یہ دونوں لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائے تھے، لقب صدیق واقعہ معراج کی تصدیق پر اور لقب عتیق جہنّم سے آزادی پر عطافرمائے ،آپ واقعہ فیل کے دو سال چار ماہ بعد 573ھ میں پیدا ہوئے آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کا رنگ گورا، بلند پیشانی ،آنکھیں اندکو ر دھنسی ہوئیں، بدر چھریرا رخسار اندر کو دبے ہوئے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے ایک نہایت معزز،بااثر شخصیت تھے، آپ نے آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیاتھا۔قبول اسلام سے قبل آپ اہل مکہ کے چیف جسٹس تھے اور دیت کے فیصلے فرماتے تھے ،زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی آپ نے شراب ،زنا،گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کیا تھا ،آپ کو فطرتا ایسے گناہوں اور بتوں کی پوجا سے سخت نفرت و بیزاری تھی ۔قبول اسلام کے بعدآپ رضی اللہ عنہ اپنے محبوب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دعوت دین میں مگن ہوگئے تھے، آپ کے قبولِ اسلام سے فدایانِ دین محمد کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور عزائم کو تسخیر کے ایسے افق عطا ہوئے کہ جس سے تخیل و طائر دینِ مبین اوج ثریا کی جانب مائل پرواز نظر آنے لگے ۔آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت بے شمار صفات وکمالات سے مزین ہے مگر شجاعت وبہادری آپ کی ایک ایسی منفرد صفت ہے کہ جسے آپنوں اور بیگانوں سب نے تسلیم کیاہیں۔ تاریخ کے اوراق آپ ر ضی اللہ عنہ کی شجاعت کی زندہ وجاوید تذکرے ومثالیں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنی حیات مبارکہ میں ہر موڑ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت اورشجاعت کا اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہے ا ور آپ کڑی سے کڑی مخالفت اور شدید سے شدید خطرات میں بھی ہمیشہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ولیم میور جیسا متعصب مستشرق بھی یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا کہ ابوبکر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرئوں میں سب سے زیادہ ثابت قدم اور مستقل مزاج رہے،جب بیت اللہ میں کفار کی جانب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی رکھی گئی تو آپ اپنی شجاعت کا پورا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے میدان میں اترے اور دشمنوں کی تمام تکالیف اپنے جسم پر سہ لی ، اسی طرح سب سے پہلے بیت اللہ میں مسلمانوں کا دخول آپ کی شجاعت کی واضح دلیل ہے۔
9ستمبر 622 عیسوی کو جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہمسفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ نے تمام مواقع بالخصوص غار ثور میں قیام کے دوران حق دوستی ادا کردیا۔آپ نے اپنی جان پر کھیل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ سانپ کے منہ پر ایڑی رکھ دی، لیکن حضورۖ کے آرام میں خلل نہ آنے دیا۔ اللہ تعالی قرآن مجید میںحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی شجاعت اور نصرت کو یوں سراہتا ہے: اے لوگو! اگر تم رسول کی مدد نہیں کرتے تو( سن لو)اللہ نے خود اپنے رسول کی مدد کردی ہے(سور التوبہ۔40)۔اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر کی مدد کو اپنی مدد فرمایاہے۔
حضرت حسن بصری روح المعانی میں ارشاد فرماتے ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں تمام روئے زمین کے لوگوں سے شکوہ کیا ہے کہ وہ اس کے رسول کی مدد نہیں کرتے اور جو ذات اس شکایت سے مستثنی ہے وہ صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات ہے۔ حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چار ایسی خوبیوں سے سرفراز فرمایا ہیں جن سے کسی دوسرے کو سرفراز نہیں کیا۔ اول :آپ کا نام صدیق رکھا اور کسی دوسرے کا نام صدیق نہیں۔ دوئم :آپ حضور اکرم کے ساتھ غارِ ثور میں رہے۔ سوئم :آپ حضور اکرم کی ہجرت میں رفیقِ سفر رہے۔ چہارم : سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو حکم دیا کہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھائیں تاکہ دوسرے لوگوں کے آپ امام اور وہ آپ کے متقدی بنیں۔یہ چار صفات فقد حضرت ابو بکر صدیقکے ساتھ خاص ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادر ی پر علامہ بزار رحمہ اللہ تعالی علیہ اپنی مسند میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتا وسب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ بہادر آپ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ پھر کیسے میں سب سے بہادر ہوا۔ تم لوگ یہ بتا کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے۔ لوگوں نے عرض کیا حضرت ہم کو نہیں معلوم ہے آپ ہی بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سنو :جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عریش یعنی جھونپڑا بنایا تھا تاکہ گرد و غبار اور سورج کی دھوپ سے حضورۖ محفوظ رہیں،ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی حملہ کردے۔ خدا کی قسم اس کام کیلئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا آپ شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے پھر کسی دشمن کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہیں ہوسکی اور اگر کسی نے جرات بھی کی تو آپ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس لئے حضرت ابو بکر صدیق ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر ہیں۔ (تاریخ الخلفائ)آپ رضی اللہ عنہ نے نصرتِ اسلام کی خاطر سب سے پہلے داد شجاعت دی، مانعین زکو ةکے خلاف تلوار اٹھائی، نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا استیصال کیا، مرتدین اور باغیوں کا سر کچلا اور آپ کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامی فتوحات کا دھارا تیزی سے بہتا رہا۔ بعض مواقع پر مصلحت کی خاطر بڑے بڑے جری اور باجگر لوگ بھی نرم پڑ گئے، لیکن بڑی سے بڑی مصلحت بھی عزم و استقلال کے اس کوہِ گراں کو اپنے موقف سے نہ ہٹاسکی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بے شمار مواقع پر آپ کے فضال و مناقب کا ذکر ہوا ہے۔
چنانچہ بخاری شریف میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے میرا سب سے بڑا محسن ہے اگرمیں خدا کے سوا کسی کو دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی محبت و اخوت افضل ہے۔حضرت ابو سعید خذری ضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم سے سنا کہ قیامت کے دن تین کرسیاں خالص سونے کی بنا کر رکھی جائیں گی اور ان کی شعاعوں سے لوگوں کی نگاہیں چندھیا جائیں گی۔ ایک کرسی پر حضرت ابراہیم جلوہ فرما ہوں گے دوسری پر میں بیٹھوں گا اور ایک خالی رہے گی۔ حضرت ابو بکرصدیق کو لایا جائے گا اور اس پر بٹھائیں گے۔ ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرے گا کہ آج صدیق اللہ کے حبیب اور خلیل کے ساتھ بیٹھا ہے۔(شرف النبی ،امام ابو سعید نیشاپوری ،صفحہ 279) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفائ) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت نہ کرنے کی ایک سبق آموز مثال یہ ہے کہ حضرت امام مستغفری ایک بزرگ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ملک شام میں ایک ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جس نے نماز کے بعد حضرات ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں بددعا کی، جب دوسرے سال میں نے اسی مسجد میں نماز پڑھی تو نماز کے بعد امام نے حضرات ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں بہترین دعا مانگی ، میں نے مصلیوں سے پوچھا کہ تمہارے پرانے امام کو کیا ہوا؟تولوگوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چل کر اس کو دیکھ لیجئے میں جب ان لوگوں کے ساتھ ایک مکان میں پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھ کو بڑی عبرت ہوئی کہ ایک کتابیٹھا ہوا ہے اوراس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم وہی امام ہو جوحضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے بددعا کیا کرتا تھا؟تو اس نے سرہلا کر جواب دیا کہ ہاں(شواہد النبوة) اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت نہ صرف تکمیل ایمان بلکہ دنیا وا خرت کی نجات کا بہترین ذریعہ و نمونہ ہے۔
پیکر شجاعت سیدنا ابوبکر صدیقنے تیریسٹھ سال کی عمر پائی اور 22جمادی الثانی سن13ھ کو مدینہ منورہ میںاس دارے فانی سے رحلت فرماکر خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کو حجرہ مبارک کے اندر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں دفن کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت طیّبہ دور حاضر میں نفاذ امن وامان کے لئے ایک بہترین نمو نہ ہے ۔دنیا کا کوئی بھی فرد چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہوں ،آپ کی حالات زندگی کا مطالعہ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے بعد ترقی اور خوشحالی سے خالی نہیں رہ سکتا ۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں ،رب ذوالجلال تمام اہل اسلام کو حضرات ابوبکر صدیق کے نقش قدم پر چلنے اور زندگی کے ہر موڑ پرآپ کے حالات زندگی سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرماے۔آمین یا رب العالمین
Junaid Raza
تحریر : جنید رضا جنید رضا : متعلم ,جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی ای میل ایڈریس:junaid53156@gmail.com فون نمبر:0310-2238341