تحریر: سید انور محمود بھارت کی پانچ ریاستوں پنجاب، گوا، منی پور، اترکھنڈاوراترپردیش میں ریاستی اسمبلیوں کے لیے 11 فروری سے 8 مارچ 2017 تک 690 نشستوں کے لیے 16 کروڑ سے زائد ووٹروں میں سے13 کروڑ 90 لاکھ ووٹرز نے اپناحق رائے دہی استعمال کیا۔نتایج کے مطابق پانچ میں سے چار ریاستوں گوا، منی پور، اتر کھنڈ اوراتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کامیابی ملی ہے جبکہ پنجاب میں ایک عشرہ کےبعد کانگریس کو کامیابی ملی ہے۔لیکن جو کامیابی بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ملی وہ ایک عرصہ تک بھارت کی سیاست پر اثرانداز رہے گی۔برطانوی ہندوستان کے زمانے میں یونایٹیڈ پرووینس(یو پی) کہلانے والی ریاست کو کو انگریزوں کے چلے جانے کے بعداتر پردیش کا نام دیا گیا جیسے عام طور پر یو پی بھی کہا جاتا ہے۔آبادی کے لحاظ اتر پردیش بھارت کی سب سے بڑی اور رقبے کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست ہے۔ ریاست اتر پردیش دریائے گنگا کے انتہائی زرخیز اور گنجان آباد میدانوں پر پھیلی ہوئی ہے، اس کی سرحدیں نیپال کے علاوہ بھارت کی ریاستوں اتر انچل، ہماچل پردیش، ہریانہ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھاڑکھنڈ اور بہار سے ملتی ہیں۔ اتر پردیش کا انتظامی و قانونی دار الحکومت لکھنؤ ہے جبکہ اعلیٰ عدالت الہ آباد میں قائم ہے۔
اتر پردیش کو بھارت میں ہمیشہ ہی اونچا مقام ملا ہے، پاکستان بننے سے پہلے بھی ہندوستان کی سیاست اسی ریاست کی لونڈی تھی، اسی ریاست کے شہر الہ آباد سے نہرو خاندان کے تین افرادملک کے وزیراعظم رہے ہیں، بھارت کے مشہور فلم اسٹار امیتابھ بچن کا تعلق بھی شہر الہ آبادسے ہے اورالہ آباد ہی ایک گھر میں ناتھورام گوڈسے کی باقیات موجود ہیں۔30 جنوری 1948 کو ہندوستانیوں کے باپو موہن داس گاندھی کو ناتھورام گوڈسے نے گولیاں چلاکر ہلاک کردیا تھا۔ بایئس کروڑ کی آبادی والی اس ریاست میں 20 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں، لیکن یہاں کے ہندو ں کے بارئے میں عام طور پریہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت ہی متعصب ہوتے ہیں۔ اتر پردیش کی بھارت میں وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں صوبہ پنجاب کی ہے، عام طور پر پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی پارٹی ہی اسلام آباد میں حکومت بناتی ہے۔ بھارت کی پارلیمنٹ (بھارت میں اسے لوک سبھا کہا جاتا ہے) میں کل 543نشستیں ہیں جن میں سے 80 نشستیں اتر پردیش کی ہیں اور جو بھی سیاسی پارٹی اتر پردیش میں کامیاب ہوتی ہے، دہلی میں سرکاروہی بناتی ہے۔ مارچ 2017 کے حالیہ انتخابات میں اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کی 403 نشستوں میں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 312نشستیں جیتی ہیں جو ایک ریکارڈ ہے، اس سے پہلے کانگریس کو اتنی بڑی کامیابی 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے نتیجے میں 80 کے عشرئے میں راجیو گاندھی کی قیادت میں ملی تھی۔
آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی دراصل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ایک سیاسی حصہ ہے، آر ایس ایس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیم روز اول سے پورے طور پر فاشسٹ سیاسی نظریات سے متاثر ہندو آمریت کی حامی رہی ہے۔ 2002 میں جب یہ ہی نریندرمودی بھارتی ریاست گجرات کا وزیر اعلی تھا تو اس نے فروری 2002 میں گجرات میں مسلم کش فسادات کروائےجس میں دوہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، تب سے نریندر مودی کو گجرات کا قصائی بھی کہا جاتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، پندرہ سال بعد اتر پردیش میں برسرا قتدار آئی ہے لیکن جس اکثریت کے ساتھ اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے اس پر سب حیران ہیں گئے ہیں۔ سال 2012 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا جس پر کچھ نے گجرات کو ہندوتوا کی لیبارٹری کہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گجرات میں 2012 کے اسمبلی انتخابات میں صرف چار مسلم رکن اسمبلی منتخب ہو کر آئے اور وہ تمام کانگریس پارٹی سے تھے۔ بی جے پی کے لیے یہ ایک سیاسی تجربہ تھا اور بی جے پی کو اس میں پوری کامیابی ملی۔گجرات کے تجربے کو نریندرمودی نے اترپردیش میں بھی دہرایا اور ایک بھی مسلمان کو بھارتیہ جنتا پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا اور بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ اترپردیش میں جیتنے والے مسلمانوں کی تعداد صرف 25 ہے جو دوسری پارٹیوں کے امیدوار تھے۔
ایک بات صاف طور پر ظاہر ہوگئی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو قوم کو اس قدر متعصب بنادیا ہے کہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر نہ صرف انتخابات جیت سکتی ہےبلکہ زبردست جیت حاصل کر کے تاریخ بھی رقم کرسکتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب نریندرمودی نے اپنے سے بھی زیادہ سخت گیر ہندو نظریات کے حامل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش میں وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ سیاست میں یوگی آدتیہ ناتھ کی شناخت ایک فائر برانڈ ہندو رہنما کی رہی ہے، وہ سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے نظریات سے کافی قریب تصور کیا جاتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے متنازع بیانات کے لیے کافی مشہور ہے ، اس کے نشانے پر اکثر ملک کی اقلیتیں رہتی ہیں۔گذشتہ چند برسوں میں اس نے بہت سارئے بیان دیے ہیں جن میں صرف دو یہاں پڑھ لیں:۔ ۔1: فروری 2015’’اگر اجازت ملے تو میں ملک کی تمام مساجد کے اندر ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھوا دوں۔ جیسے ارياورت نے آریہ بنائے ویسے ہی ہندوستان میں ہم ہندو بنا دیں گے۔ پوری دنیا میں بھگوا (ہندو) کا پرچم لہرا دیں گے۔ مکہ میں غیر مسلم نہیں جا سکتا ہے، ویٹیکن میں غیر عیسائی نہیں جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں ہر کوئی آ سکتا ہے‘‘۔۔2: جون 2016 ’’جب ایودھیا میں متنازع ڈھانچہ (بابری مسجد) کو گرانے سے کوئی نہیں روک سکا تو مندر بنانے سے کون روکے گا‘‘۔
بھارت کی سب سے کثیر آبادی کے وزیر اعلی کے خیالات جاننے کے بعد مجھے بھارت کے شہردیو بندمیں قائم اسلامی ادارہ دارالعلوم کے وہ علماء اور بھارت کےسابق وزیر تعلیم مولانا ابو کلام آزاد بہت یاد آئے جو پاکستان کے سخت ترین مخالف تھے۔ دہلی سے 160 کلومیٹر دور دیوبند ایک پسماندہ شہر ہے۔ شہر کو مسلم شناخت دارالعلوم سے ہی ملی ہے۔ دیوبند کے دارالعلوم کا قیام 1866 میں ہوا تھا اور اس کا تعلق 1857 میں انگریزوں کے خلاف ہونے والی بغاوت سے بھی جڑا ہے۔لیکن دیوبند کے اس دارالعلوم کی خاصیت یہ رہی ہے کہ یہاں کے اکثر علماء ہندو نواز رہے ہیں۔ یہاں کے علماء نے پاکستان کے قیام کی سخت مخالفت کی تھی۔ 2017 کے ریاستی انتخابات میں دارالعلوم کے شہر دیو بند میں بھارتیہ جنتا پارٹی چھائی رہی اور ایک مسلمان بھی یہاں نہ جیت سکا۔ حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی برجیش سنگھ نے دیوبند شہر کا نام بدل کر دیوورند رکھنے کی تجویز دی ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ دیوبند نام ’دیوی ون‘ سے بنا ہے۔
مولانا ابو کلام آزاد کانگریس کے نو سال صدر رہے لیکن سوائے ہندوں کی جی حضوری اور پاکستان کی بھرپور مخالفت کے انہوں نے کچھ نہ کیا۔ جناح صاحب ان کو کانگریس کا شو بواے کہتے تھے۔ مولانا ابو کلام آزاد پاکستان کے اس حد تک مخالف تھے کہ بنگلہ دیش بننے کے بعدلوگوں کوآزاد کی ایک پیش گوئی کہ پاکستان کی عمر 25 سال ہے یاد آئی مگر یہ آزاد کی پیشنگوئی نہیں دلی خواہش لگتی ہے۔ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل انڈین نیشنل کانگریس میں شامل رہے ہیں ۔ 1928میں نہرو رپورٹ جس میں مسلمانوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا تھا قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ 1929کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے چودہ نکات پیش کیے جو کہ تحریک پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور شاید یہ چودہ نکات ہی قائد اعظم محمد علی جناح کی ہندوستان کے لیے پیشنگوئی تھی کہ آنے والے وقت میں بھارت ایک سیکولر اسٹیٹ نہیں بلکہ ایک انتہا پسند ہندو ریاست ہوگی۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس بڑی کامیابی کے بعد بھارت کےمسلم رہنماوں کو سوچنا ہوگا کہ انتہا پسند ہندو ریاست میں مسلمانوں کا مستقبل کیسا ہو گا۔