تحریر : انیلا انجم عصر حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کی افادیت و مقبولیت سے ہرگز انکا نہیں کیا جا سکتا۔آج کے اس دور میں بچے بڑے مرد عورت ہر عمر کے لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں ساتھ ہی دینی طبقہ بھی پیش پیش ہے کہ جس میں عالم دین سے لیکر مفتی وشیخ الحدیث بھی تبلیغ دین و دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرر ہے ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنا اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، لیکن بدقسمتی سے اس بھیڑ میں ایسے شرپسند اور آزار خیال لوگ گھس آئے ہیں جو اب غیروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ ا س بے لگا م ما فیا کو قا نون کی گر فت میں لا نا نا گزیر ہو گیا اگر بر وقت ایسا نہ کیا گیا اس کے خطرناک نتائج سا منے آ سکتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب ٹی وی پر سرکاری چینل کے علاوہ تفریح کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ مگر پھر نجی چینلز کی بھرمار نے ٹی وی انڈسٹری کو ایک نئی بلندی پر پہنچا دیا۔ ڈرامہ چینلز، نیوز چینلز، میوزک چینلز، کوکنگ چینلز، فلمی چینلز، معلوماتی چینلز غرضیکہ ہر طرح کا ذوق رکھنے والوں کے لئے تفریح کو ایک ہی جگہ پر جمع کر دیا گیا۔ ان سب چینلز میں سب سے زیادہ مقبولیت نیوز چینلز کی کیٹگری کو حاصل ہوئی۔ ہر شخص اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں آگہی رکھنے لگا۔ نمبر ایک چینل بننے کی دوڑ شروع ہوئی تو اس کیٹگری میں بھی جدت لائی گئی۔ جس نے اسے تفریح کے لئے سب سے موزوں ذریعہ بنا دیا۔
نیوز چینلز کے جس سیگمنٹ نے سب سے زیادہ پزیرائی حاصل کی وہ شام کو نشر ہونے والے سیاسی پروگرام ہیں۔ آپ خواہ کیسا بھی ذوق رکھتے ہوں آپ کی تفریح کا سامان کسی نہ کسی سیاسی پروگرام میں مل ہی جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ ڈرامہ پسند کرتے ہیں تو آپ کو کسی سیاسی پروگرام میں نیوز اینکر وقت حاضر کے بغل گیر سیاستدانوں کے دست و گریباں ہونے والے زمانے کا فلیش بیک نشر کرتا ہوا ملے گا۔ اگر آپ کامیڈی کو پسند کرتے ہیں تو آپ کو ایک صاحب کسی چینل پر بیٹھ کر اپنے ماضی کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے چٹکلوں کی صورت میں حکومت پر تنقید کرتے اور ساتھ ساتھ اپنے علم نجوم کی روشنی بھی ناظرین پر نچھاور کرتے دکھائی دیں گے۔ اگر آپ فائٹنگ ایکشن پسند کرتے ہیں تو بھی آپ کو جیکی چن اور آرنلڈ کے میعار کا ایکشن دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
اگر آپ انڈین ڈراموں کے شوقین ہیں تو آپ نیوز اینکر کو پھپھے کٹنی کا کردار ادا کرتے ہوئے سامنے بیٹھے مہمانوں کو ساس اور بہو کی طرح لڑواتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ایمان کو تازہ کرنا چاہتے ہوں تو ایک صاحب آپ کو اپنے پروگرام میں یہ باور کرواتے دکھائی دیں گے کہ اگر اگلے 5 منٹ میں انقلاب نہ آیا تو قیامت کو برپا ہونے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ اگر آپ تھوڑی سی رنگین طبیعت رکھتے ہیں تب بھی آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ کی خاطر اب یہ سہولت بھی سیاسی پروگراموں میں دستیاب ہے۔ آپ کو ایک خاتون دوسری خاتون کی ترقی حاصل کرنے کے لئے کی گئی جدوجہد کی پر لطف کہانی بیان کرتی یا کوئی صاحب دوسرے صاحب کے ماضی سے جڑے رنگین قصّے سناتے دکھائی دے سکتے ہیں۔ غرضیکہ ریٹنگز کا جن آپ کو مایوس نہیں ہونے دے گا۔
News Channels
اب نیوز چینلز سے آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں۔ تفریح کے لئے اور خبروں سے اپ ڈیٹ رہنے کے لئے اب ایک اور مقبول ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی درجہ میں سوشل میڈیا سے جڑا ہے۔ جو خبریں روایتی میڈیا میں نشر نہیں ہوتیں پھیل جاتی ہیں۔ اس کی مقبولیت کی ایک بڑی اور اہم وجہ آزادی اظہار رائے ہے۔ آپ بلا دریغ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے نظریہ کے مخالف نظریہ رکھنے والے کو عقلی دلیل کے ساتھ برا بھلا کہ سکتے ہیں۔ آپ اپنے سیاسی مخالفین سے بنا کسی ڈر اور خوف کے دشنام طرازی کر سکتے ہیں۔ آپ دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ بدخلقی اور بد تہذیبی کے سمندر میں گہرا ترین غوطہ لگانے میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ آپ مذہب پر اپنی قیمتی آرا سے لوگوں کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ آپ وہ فتوے جاری کر سکتے ہیں۔ آپ اپنی انا کی تسکین کے لئے آزادی کے ساتھ جتنا چاہے جھوٹ بول اور پھیلا سکتے ہیں اور اس سب کے لئے کوئی آپ کا محاسبہ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ایسی سہولیات ہیں جو ابھی الیکٹرانک میڈیا پر بھر پور طریقے سے میسر نہیں ہیں۔ ضرو ر ت اس امر کی ہے کہ جب بھی حد سے بڑ ھ کر کسی بھی شعبے میں آزادی ہو تی ہے تو اس کا مثبت کم اور منفی استعمال زیا دہ ہوتا ہے ،اب حکو مت کو ایسے عملی اقد امات فو ری طو ر پر کر نے چا ہیں تا کہ سوشل میڈ یا کی بے لگام آزادی کو نکیل ڈالی جا سکے۔