تحریر : شاہد شکیل یہ کسی گھوڑے، کتے یا کار کی ریس یا کم بجٹ سے بنائی گئی اور زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا مقابلہ نہیں جسے ٹاپ یا فلاپ کی کیٹاگریز میں شامل کیا جائے بلکہ دنیا کے ان ممالک پر نظر دوڑائی گئی ہے جو غلط پالیسیوں سے اپنا گراف ڈاؤن کر چکے اور کر رہے ہیں اور امتیازی تمغے یا ایوارڈ لینے کی بجائے شدید مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ریاستوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں فرد واحد نہیں بلکہ ایک صدر سے مزدور تک کے خون پسینے کی محنت شامل ہوتی ہے تب جا کر وہ ایک مکمل اور ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے ،محنت کے علاوہ ریاستی قوانین پر سختی سے عمل درامد اہم کردار ادا کرتا ہے ،عام رٹی رٹائی بات چونکہ ہر ایک کے ذہن میں رچ بس گئی ہے کہ جیسے حکمران ویسی عوام تو یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ کسی بھی ریاست میں سب چور ڈاکو نہیں ہوتے اور نہ ہی سب محب وطن،اپنی کمزوری اور نااہلی کو حکومتی ٹیم کے سر منڈھ دینا کہ حکومت کرپٹ ہے درست نہیں بلکہ جہالت ہوتی ہے۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ کیا حکومت اپنا فرض ذمہ داری سے نبھا رہی ہے یا نہیں کیا عوام مطمئن ہیں اور ملک گھوڑے کی مانند سر پٹ دوڑتا ہوا ترقی کی طرف گامزن ہے ، معمولی بجٹ سے لاکھوں کروڑوں کے گھروں میں گیس نہ سہی لکڑی کا چولہا جل رہا ہے یا قوم دن رات کسی معجزے کے انتظار میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دنیا کو خیر باد کہہ رہے ہیں ،سوچنے کی بات ہے کہ شپ کا کپتان کیوں طوفان میں گھرے جہاز کو لہروں کے سپرد کر کے چوہے کی طرح بھاگ جاتا ہے کیا ایسے کپتان یا حکمران سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ برے وقت میں انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھے گا؟گزشتہ دنوں ترکی کے صدر نے جرمن چانسلر کو نازی کہہ کر شاید اپنی ریاست کیلئے مسائل کا آغاز کیا بیان کے چند گھنٹوں بعد جرمنوں کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ ترکی کے صدر کو احسان فراموش کہا گیا اور ترکی میں چھٹیاں نہ منانے کا اعلان کر دیا،ہالینڈ میں بھی دو طرفہ طعنے بازی ہوئی انہیں بھی نازیوں کا دست راز کہا اور حالات کشیدگی اختیار کر گئے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈپلومیسی طریقے سے کیسے دوبارہ دوستانہ ماحول پیدا کیا جائے گا ۔گزشتہ چند برسوں سے ترکی کے اندرونی و بیرونی معاملات میں کافی ہلچل سی مچی ہوئی ہے ،تجزیہ کاروں کا کہنا ہے دس بر س قبل کے اور آج کے ترکی میں کافی فرق ہے بہت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مثلاً ماضی کے مقابلے میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے ۔بلوم برگ مِسری انڈیکس کے مطابق ترکی کی رینکنگ شدید متاثر ہو رہی ہے چند غلط پالیسیوں سے مصائب میں گھر چکا ہے اور اگر ایسا جاری رہا تو مستقبل قریب میں ونیزویلا کی سطح پر آجائے گا۔
Turkey
دوسری طرف یونان ، ارجنٹائن اور ترکی کو ایسے ممالک کی لسٹ میں شمار کیا جا رہا ہے جہاں افراط زر کا خدشہ ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اوپر سے منفی اور ہتک آمیز مکالمات کا بدستور تبادلہ ترکی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔جزوی طور پر سپین ،سربیا، برازیل اور یوراگوائے کو فلاپ ریاستوں میں شمار کیا گیا ہے جبکہ جرمنی اور آسٹریا نے ترقی کی راہوں میں برطانیہ اور آسٹریلیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے حالانکہ گزشتہ برسوں ان ممالک کو شدید مصائب کا سامنا بھی ہوا جس میں بریکسٹ کے علاوہ مہاجرین کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر امڈ آیا تھا۔ تھائی لینڈ کے بارے میں حیرت انگیز رپورٹ پیش کی گئی کہ جہاں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے کیونکہ دن میں ایک گھنٹہ لیگل کام کرنے والا بھی بے روزگار نہیں کہلایا جاتا بھلے وہ باقی آٹھ یا نو گھنٹے غیر قانونی طریقے سے جاب کرے۔
غیر قانونی جاب یا بنا کاغذات کی رجسٹریشن دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں جرم ہے لیکن جرائم کو مکمل طور پر دنیا کی کوئی پولیس یا قانون جڑ سے ختم نہیں کر سکتا ۔بالترتیب سنگا پور، سوئزر لینڈ، جاپان اور آئس لینڈ اقتصادی و معاشی طور پر بہترین ممالک شمار کئے گئے۔ٹاپ اور فلاپ میں ناروے دنیا کا بہترین اور ٹاپ شمار کیا گیا جبکہ پولینڈ کو ایک فلاپ ریاست کا درجہ دیا گیا ،دیگر ٹاپ ممالک میں چین ، تائیوان، نیدر لینڈ کو شامل کیا گیاجہاں نمایاں طور پر بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح میں واضح کمی ہے۔ریسیں گھوڑوں ،کتوں اور کاروں کی ہوتی ہیں ریاستوں کی نہیں ٹاپ اور فلاپ فلم والوں کا ڈیپارٹمنٹ ہے۔
اصل بات تو یہ ہے کہ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کیلئے تعلیم اور قوانین اہم کردار ادا کرتے ہیں ،سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ریاست میں ایک انسان خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف لیتا ہے کہ وہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہر ممکن اقدام کرے گا اور حکومتی مدت پوری ہونے تک ملک اور قوم کا بیڑا غرق کر دیا جائے تو ایسی حلف برداری کا کیا فائدہ ،اس حاکم ،صدر ،بادشاہ نے اپنے حکومتی دور میں نہ صرف ملک و قوم کو دھوکا دیا ،غداری کی بلکہ خدا سے بھی منکر ہوا تو ایسے لوگ حکمرانیت کے قابل نہیں کہلائے جاتے بلکہ ۔۔۔۔ ان کی ابتد اء فلاپ انسان سے ہوتی اور ٹاپ پر پہنچنے کے بعد قوم کو ٹپکا دیا جاتا ہے۔