دور کے ڈھول سہانے

Employment

Employment

تحریر : ممتاز ملک
آپ پاکستان یا اس کی آبادی جیسے ملک میں بیس کروڑ افراد کے ملک میں رہ کر یہ باتیں کر رہے ہیں کہ وہاں یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے یہ خرابی ہے وہ خرابی ہے جبکہ وہاں جو جتنا چاہے پڑھ لے. جہاں چاہے ریڑھی ہی سہی لگا کر محنت کر کے بہترین کما سکتا ہے. ہمارے محلے کا چنے لگانے والا دو سے چار گھنٹے چنے لگاتا ہے اور ماشااللہ دس ہزار روپے سے زیادہ روز کا کماتا ہے ..

ہم تو فرانس میں بغیر قانونی اجازت ناموں اور سالوں کی خواری کے بعد بھی چھابڑی بھی اپنی مرضی سے نہیں لگا سکتے ہیں جناب . یہاں فرانس میں صرف چھ ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی والے ، دنیا کے امیر کہے جانے والے، ملک میں رہتے ہیں.. ہمیں پوچھیں یورپ میں زندگی کس قدر مشکل ہے . یہاں آپ کھائیں نہ کھائیں ہر مہنے ایک موٹی رقم ٹیکس کی مد میں نکالتے ہیں .پھر آپ کو روٹی کھانے کو کچھ بچے تو کھانے کی اجازت ہے .

گھر کی قسط یا کرایہ تاخیر کر دیں دو ماہ نہ پہنچے تو چھ چھ فٹ کے بدمعاش عدالتی آرڈر کیساتھ آپ کا سامان اٹھا کر لے جانے اور آپ کا گھر سیل کرنے پہنچ جاتے ہیں . پھر آپ چاہے رات سڑک پر گزاریں .ان کی جانے بلا. . اس کے بعد آپ کے لیئے کوئی سرکاری امداد کتنی دیر میں ملے گی یہ آپ کی قسمت .. پڑھے لکھے ایم اے ، ڈبل ایم اے برتن دھونے کی نوکری کی تلاش میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں .. لاکھوں لوگ بیروزگار اور بےگھر ہیں یہاں . ایک جمعدار اور آیا کی نوکری کرنے کے لیئے بھی آپ سے تعلیمی اسناد، زبان کا لیول اور چھ ماہ سے دو سال تک کے ڈپلومہ اور کورسز مانگے جاتے ہیں …

اگر ایک کورس قسمت سے کہیں آپ کو سرکاری روزگار دفتر نے آفر کر بھی دیا تو سوچیئے دو چار سو یورو آپ کو وظیفہ( اگر آپ کی قسمت اچھی ہے) تو ملا ورنہ یہ چار چار ہزار یورو کے کورسز آپ کو اپنے پلے سے کرنے ہیں ..

(یاد رکھیں یہاں صرف بجلی گیس کا کا کم از کم بل بھی دو سے تین سو یورو کا ہوتا ہے ) اور اس کے بعد بھی آپ کے پاس روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے. ایک آدمی کا روزانہ کا کم از کم خرچ بھی چالیس سے پچاس یورو ہے اس کا تین وقت کا کھانا پینا رہنا اور بس کے ٹکٹس ڈال کر . اور بھی بہت سے ڈھول سہانے ہیں .. ہم اپنے ملک سے باہر آ کر ہی اس کی قدر کرتے ہیں اصل میں . آپ کہیں گے پھر ہم لوگ باہر کیوں رہتے ہیں ؟

اس لیئے کہ ایک زندگی میں دو ہجرتیں ممکن نہیں ہیں .. بچوں کی پڑہائیاں یہاں کے قوانین طور طریقے اور سسٹم میں ہم یہاں کی مشین کا پرزا بن جاتے ہیں. اب “ہم کمبل چھوڑیں بھی تو کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا “والا حساب ہے . ہم بچے نہیں چھوڑ سکتے . اور بچے یہاں کی تعلیم اور زبان کو اپنے ملک میں کام کے لیئے آسان نہیں سمجھتے سو صبر اور قناعت ہم چاہیں نہ چاہیں کرنا ہی پڑتے ہیں . .جبکہ ہمارے ملک کی خرابیاں ہمارا ووٹر ہی ٹھیک کر سکتا ہے . اور کوئی نہیں …

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک