تحریر : انجینئر افتخار چودھری مجھے بس کوئی اتنا بتا دے کہ کہ پروگرام پشتون کر رہے تھے حملہ اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈوں نے (بقول ایک فریق کے) نے کیا جس کے ناظم اعلی پشتون ہیں جس جماعت کے آلہ کار یہ لوگ جمعیت والے ہیں اس کے امیر سراج الحق ہیں وہ بھی پشتون ہیں تو یہ لڑائی پنجابی اور پشتون کی کیسے ہو گئی۔ ویسے بھی اسلامی جمعیت طالبات کی تقریب پر حملہ کرنا کون سی مردانگی تھی؟جب سے یہ واقعہ ہوا ہے ہر کوئی اپنی اپنی چھوڑ رہا ہے بلکہ لمبی چھوڑ رہا ہے۔
سب کچھ کیجئے مگر خدا را یہ نہ کیجئے کہ آپس میں اکائیاں لڑ پڑیں۔اے این پی تو مدت سے چاہتی ہے کہ وہ پشتون کارڈ استعمال کرے جسے حال ہی میں تحریک انصاف نے ناکام بنا دیا ہے۔میرا دوسرا سوال ہے آپ پنجاب یونیورسٹی کی روایات کو کیوں توڑنا چاہتے ہیں۔اس ادارے میں ایک مدت سے جمعیت نے آزاد خیالوں کو گھسنے نہیں دیا۔اسی وجہ سے جامعہ بچی ہوئی ہے اور اس وقت پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی ہے جہاں غریب کا بچہ بھی پڑھ سکتا ہے۔مجھے لگتا ہے جناب مجاہد کامران وقفے وقفے اس جامعہ کو نیشنل کالج آف آرٹس بنانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں جا کر محسوس ہوتا ہے آپ کسی یورپی ادارے میں موجود ہیں۔اسلامی جمعیت طلبہ سے اختلاف کی گنجائیش ہے یہیں عمران خان پر تشدد کیا لیکن اس واقعے کا ایکشن لیا گیا۔
اب اسے تباہ کرنے کی سازش جاری ہے۔ہمارے وقتوں میں سرخے بغل میں بچی دبا کر سوٹے لگانے کی کوشش میں کئی بار دھنائی کا شکار ہوئے۔اس ادارے کو ہر ایک نے فتح کرنے کی کوشش کی جس میں بھٹو بھی شامل رہے لیکن کامیابی انہیں بھی نہیں ملی ۔میرا لکھنے کا مقصد یہ ہے خدا را اسے لسانی لڑائی نہ بنایا جائے۔ویسے میرا ایک اور سوال بھی ہے کہ کیا اس دن پورے پاکستان میں پختون کلچر ڈے منایا گیا اگر یہ بات صیح ہے تو زیادتی ہوئی اور اگر نہیں تو جناب یہ ایک پنگا لینے کی کوشش تھی۔
جسے اسلامی جمعیت طلبہ نے ناکام بنا دیا۔یاد رکھئے جن دنوں بھٹو پورے مغربی پاکستان کا انتحاب جیت رہے تھے سرخے ایشیا کو سرخ بنا رہے تھے تو ہم فقیر سبز اور پنجاب یونیورسٹی،کراچی یونیورسٹی میں جمعیت جیت رہی تھی۔انجینئر افتخار چودھری سابق امیدوار رکنیت ١٩٧٤ بانی ناظم اسلامی جمعیت طلبہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی لاہور۔