تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال پاکستان بھر میں ہزاروں بچے کٹے ہونٹ اور تالوکے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی ایک بڑی تعداد غذا ٹھیک طرح اندر نہ جانے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہے،جو بچ جاتے ہیں ان کی زندگی بھی آسودہ نہیں ہوتی۔اس پیدائشی نقص کی وجہ سے، مذاق کا نشانہ بنتے ہیں، دل آزاری کی باتیںسنتے یہ بچے احساس کمتری کے گہرے زخم لے کر پروان چڑھتے ہیں،والدین بھی ایسے اپنے بچوں کو چھپا تے رہتے ہیں۔ بعض افراد توایسے بچوںسے توہمات بھی وابستہ کرتے ہیں،پیدائشی نقص کے والدین اور بچے شدید نفسیاتی اورسماجی اذیت کا شکاررہتے ہیں۔ گجرات کے معروف ماہرصحت و سماجی کارکن ڈاکٹر اعجاز بشیر نے ہزاروں بچوں کی زندگی بدل کررکھ دی ہے۔ڈاکٹر اعجاز بشیر نے ان پھول چہروں کو زندگی دینے کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے سرجری کیمپ لگانا شروع کر دئیے ، جہاں انگلینڈ اور امریکہ سے چوٹی کے پلاسٹک اور کلیفٹ سرجن آتے اور عالمی معیار کے مطابق ان بچوں سرجری کرتے۔اورانہیں ایک نئی زندگی دیتے۔گزشتہ سال ڈاکٹر اعجاز بشیر نے گجرات میں کلیفٹ سرجری کے پہلے مکمل ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ کلیفٹ ہسپتال میں آپریشن تھیٹر، صفائی، آلات، ادویات اور سرجری سب کچھ عالمی معیارکے مطابق ہوتا ہے اور یہ تمام خدمات بلامعاوضہ ہوتی ہیں۔اس کے سارے اخراجات پاکستان کلیفٹ اینڈ پیلٹ ایسوسی ایشن (PCLAPA) اور ڈیسنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن اٹھاتی ہے۔
کٹاہونٹ یا تالو ایک پیدائشی نقص ہے دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد بچے اس پیدائشی نقص میں مبتلا ہیں تالو یا ہونٹ تھوڑا سا یاپورا کٹا ہوسکتاہے، ایک طرف یا دونوں طرف سے بھی کٹا ہوسکتاہے ،بعض اوقات دونوں نقص بھی ہوتے ہیں ۔ایسے وقت میں جب ہونٹ اور تالو بن رہے ہوتے ہیں کوئی بھی رکاوٹ یا گڑ بڑ ہونٹ یا تالو کٹے نقص کو جنم دیتا ہے۔ حمل کے دوران فولک ایسڈ کی خوراک میں کمی یا دورا ن حمل سٹیرائذر نیند آور گولیوں کااستعمال حمل کے ابتدائی ہفتوں میں کسی ایمرجنسی کی وجہ سے بے ہوشی والی دوائی کے استعمال سے یا ان دنوں پیٹ کے ایکسرے کروانے سے ان نقائص کا زیادہ ہونے کاخطرہ ہے۔حاملہ خواتین میں کینسر کی دوائیاں استعمال کرنے سے بھی ان نقائض کاخطرہ بن جاتاہے، دوران حمل خوراک کی بے حد کمی سے بھی پیدائشی نقائص زیادہ ہوسکتے ہیں ۔فرسٹ کزن کے ساتھ شادیوں سے بھی ان نقائص کا امکان زیادہ ہے مگر ان تمام وجوہات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اصل وجہ ابھی بھی معلوم نہیں ہے بعض اوقات اگر میاں بیوی آپس میں پہلے سے رشتہ دار نہیں ہیں اور ان کے اپنے کٹے ہونٹ اور تالو کے مریض پاکستان میں بہت زیادہ ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً پونے تین لاکھ سے زائد بچے بڑے ان نقائص کاشکار ہیں 550 پیدا ہونے والے بچوں میں ایک بچے کا ہونٹ، تالویا دونوں کٹے ہوتے ہیں، اس طرح سالانہ تقریباً50 لاکھ سے زائد پیدا ہونے والے بچوں میں 9 ہزار سے زائد بچوں کے ہونٹ یا تالو یا دونوں کٹے ہوتے ہیں چونکہ زیادہ آبادی ہمارے ہاں غریب ہے، اس لیے مریضوں کی تعداد غریب حلقے میں ذیا دہ ہے۔ ان نقائص کا علاج صرف پلاسٹک سرجری کے ذریعے ہی ممکن ہے کوئی ایسی دوائی نہیں جس سے اس کا علاج ممکن ہو ملک میں موجودہ ناکافی سہولتوں کی وجہ سے ہر سال بمشکل2000 کے قریب ہونٹ یا تالو کٹے کے مریضوں کا علاج ہو پاتاہے اس وجہ سے ہر سال ہونٹ کے اور تالو کٹے مریضوں کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہوتا چلا جارہاہے۔ہونٹ کٹے بچے کو دودھ پینے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی مگر تالو کٹے بچے میں دودھ کوSuckکرنے میں بے حد دقت ہوتی ہے اس لیے تالو کٹا بچہ عام طور پر کمزور رہ جاتاہے دوسرا تالو کٹے بچوں میں کان میں انفیکشن زیادہ ہونے کاخطرہ ہوتاہے کیونکہ گلے اور کان کے درمیان ٹیوب کا ایک سرا تالو کٹا ہونے کی وجہ سے کھلا ہوتاہے اور انفیکشن گلے سے کان کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ان عوامل کی وجہ سے بچہ اپنی بھوک کے مطابق دودھSuckنہیں کرسکتا اس لیے اس کی نشوونما نہیں ہوتی اس کاوزن اور کم ہوجاتاہے۔ایسے بچوں کو ماں دودھ پلانے کیلئے خاص تکنیک کا استعمال ضروری ہے یا ماں کے دودھ بریسٹ پمپ کے ذریعے نکال لیاجاتاہے اور اسے فیڈر میں ڈال کر پلایاجائے نپل کاسوراخ بڑا ہونا چاہیے یا نپل آگے سے تھوڑا سا کاٹ دیں تاکہ سوراخ بڑا ہوجائے تاکہ بچے کو دودھ Suckکرنے میں کم وقت ہو دودھ پلاتے وقت بچے کو45 ڈگری تک رکھیں۔
Children Cut Lips
تالو کٹا بچہ صحیح الفاظ نہیں بول سکتا اس لیے اس کی آواز سننے والے کو سمجھ نہیں آتی جب بچے کی آواز کسی کو سمجھ نہیں آتی تو وہ کسی سے بات کرنے سے ہچکچانے لگتاہے اور آہستہ آہستہ احساس محرومی کاشکار ہوجائے گا ہونٹ کٹے بچے کا چہرہ دور سے بھی عجیب لگتاہے دیکھنے والے عام طور پرحقارت سے دیکھتے ہیں یہ بچے بے انتہا مصائب کاشکار ہیں دوسرے بچے انہیں تنگ کرتے ہیں جسمانی و ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے ماں باپ بھی انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔جن خاندانوں میں ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں ان خاندانوںکو آپس میں شادی سے اجتناب کرنا چاہیے اگر شادی خاندانوں کے اندر ہوگی تو آئندہ نسل میں ہونٹ کٹے یا تالو کٹے بچے کا امکان زیادہ ہوجائے گا بعض اوقات تین تین بچوں میں یہ نقص ہوتاہے اور کئی نسلوں میں لگاتار یہ نقص منتقل ہوتاہے۔جتنا فرسٹ کزن سے شادی کاتناسب بڑھے گا اتنا ہی بیماریوں اور پیدائش نقائص کاامکان زیادہ ہوجاتاہے کیونکہ ایک خاندان کے افراد کی آپس میں شادی سے وہی جینز بار بار مل کر بیماریوں کاامکان بڑھادیتے ہیں جبکہ باہر کے خاندان میں شادی سے بیماریوں کاامکان کم ہوتا ہے۔
پاکستان میں عالمی معیار کی پلاسٹک سرجری کے ذریعے سرجری کے ذریعے ہونٹ و تالو کٹے بچوں کو معاشرے کا کارآمدشہری بنایا جارہاہے مگر یہ آپریشن پیشہ وارانہ مہارت دل لگی شفقت اور محبت کے جذبے سے کیا جائے تو یہ بچے نہ صرف مسکرا سکتے ہیں بلکہ صحیح الفاظ بولنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ہونٹ کٹے بچے کا آپریشن تین ماہ کی عمر میں کیاجاسکتاہے تالو کٹے بچے کاآپریشن کم از کم ایک سا ل تک لازمی کرنا چاہیے ہونٹ کٹے بچے کے آپریشن میں تاخیر سے بچے کا احسام محرومی بڑھتاہے مگر کوئی ناقابل تلافی نقصان نہیں ہوتا مگر تالو کٹے بچے کے آپریشن میں جتنی تاخیر ہوگی بچے کے صحیح الفاظ ادا کرنے کی صلاحیت اتنی ہی زیادہ متاثر ہوگی چار سال کے بعد اگر تالو کا آپریشن کیا جائے تو آپریشن کے بعد سپیچ تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر صحیح وقت پر ماہر پلاسٹک سرجن سے یہ آپریشن کروایا جائے تو بچے کی شکل نارمل کے قریب ہوجاتی ہے بعض اوقات نا ک سید ھا کر نے کے لئے 15سے 16سا ل کی عمر میں ایک اور آ پر یشن کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہونٹ کٹے تالو کٹے بچوں کیلئے بہت زیادہ کام نہیں ہوا پہلی بات یہ ہے کہ چونکہ 90 فیصد مریض بے حد غریب ہوتے ہیں دوسری یہ خطرناک بیماری نہیں ہے اس لیے ایک مسلسل ظالمانہ غفلت ان بچوں کو ایک نئی خوشگوار زندگی سے دور کردیتی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں سب سے زیادہ ہونٹ و تالو کٹے بچوں کے آپریشن کیے جاتے ہیں مگر وہاں پر کام کا بوجھ اوردبائو اتنا زیادہ ہوتاہے کہ وقت پر ان بچوں کاآپریشن ممکن نہیں ہوپاتا۔مریض پہلے دکھانے کیلئے آئوٹ ڈور میں آتاہے تو اسے داخلے کیلئے چھ سے 12 ماہ بعد تاریخ دی جاتی ہے جب اس کے داخلہ کا وقت آتاہے تو پھر اگر اسے وارڈ میں بستر خالی ہو تو داخلہ ہوجاتاہے وگرنہ مزید انتظار کرنا پڑتاہے داخلے کے بعد وارڈ میں جو مریض پہلے داخل ہیں ان کے آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی اس کی باری آئیگی تمام والدین اس صبر آزما مراحل سے گزرنا نہیں چاہتے اور وہ مایوس ہو کر ان بچوں کے آپریشن میں مزیدتاخیر کردیتے ہیں۔
ہر ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہونٹ و تالو کٹے بچوں کوترجیحی طور پر داخل کرکے ان کا آپریشن کرنا چاہیے تاکہ یہ بچے معاشرے کے انتہائی کارآمد شہری بن سکیں مگر ایسا تبھی ممکن ہوگا جب آپریشن تھیٹرز کی تعداد بڑھائی جائے اور سرجنز کی تعداد میں بھی اضافہ کیاجائے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو سرجنز یہ آپریشن کرتے ہیں انہیں بین الاقوامی معیار کی عملی تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ ان ننھے فرشتوں کے مسکرانے اور صحیح بولنے کا سبب بن سکیں۔پاکستان میںہونٹ کٹے یا تالو کے مسائل کے علاج کے لئے گجرات کے معروف ماہرصحت و سماجی کاکارکن ڈاکٹر اعجاز بشیر نے کلیفٹ ہسپتال کے نام سے جی ٹی روڈ جلیانی، گجرات میں اپنی وسیع قطعہ ا راضی اس پراجیکٹ کے لئے نہ صرف وقف کی بلکہ ان مسائل کے لئے عالمی سطح کے مکمل اور مفت علاج کا اہتمام کیا ہے، جی ٹی روڈ جلیانی (گجرات)پر خوبصورت اور کشادہ عمارت میں کلیفٹ ہسپتال قائم کیا گیا ہے جس میں ان بچوں کے تمام تر مسائل کا مکمل اور مفت علاج کیا جاتا ہے، ہر ماہ یہاں پہ کیمپ لگایا جاتا ہے جس میں باقاعدہ بیرون ملک سے پاسٹک سرجری میں عالمی سطح پہ شہرت رکھنے والے پلاسٹک سرجنز کی ٹیم گجرات آتی ہے۔
اس بار یہ کیمپ 27مارچ سے 1اپریل 2017ء تک کلیفٹ ہسپتال جلیانی، جی ٹی روڈ گجرات میں لگایا جا رہا ہے جس میں روزانہ 20 کے قریب بچوں کے آپریشنز کئے جائیں گے۔ہم میں سے ہر کوئی اس پیغام کو اس مرض کے شکار بچوں کے والدین تک پہنچاکرنہ صرف ان بچوں کی زندگیوں کو بارونق بنا سکتا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں کامیابی اور اللہ کی رضا و قربت بھی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ علاج مکمل مفت ہے، اس کے بارے میں مزید معلومات کے لئے کلیفٹ ہسپتال جلیانی ِ جی ٹی روڈ گجرات کی ویب سائٹ http://www.clefthospital.com/وزٹ کی جاسکتی ہے یا ہسپتال کے ان فون نمبرز پہ رابطہ کیا جاسکتاہے۔ 0336-6294433,+92-533-558057اس پیغام کا پھیلانا بلاشبہ ایک بہت بڑی نیکی ہے جو ہمیں بالکل مفت حاصل ہو سکتی ہے۔