تحریر : مرزا رضوان وطن پاکستان سے دور پاکستانیوں کی محبت کو کسی صورت بھلایا نہیں جا سکتا، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں بیٹھے ہوں۔ روزی روٹی کے چکر میں وہ ہم ہزاروں میل دور بیٹھ کر ہماری محبت و شفقت کے ہر وقت منتظر رہتے ہیں ، جبکہ ہم یہاں ہر غمی خوشی میں اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور بچوں کو اپنے ساتھ پاتے ہیں اور انہیں کبھی تنہا ئی کا احساس نہیں ہونے دیتے ، ایک ہمارے وہ پاکستانی بھائی ہیں جواس وقت سائوتھ افریقہ میں مقیم ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے ہمارے کسی دکھ درد میں شریک نہیں ہوسکے ، روزگار کی تلاش میں جو گھروں سے اپنے ماں باپ کی جمع پونجی ، بہن کی شادی کیلئے رکھے گئے پیسے یاپھر رشتہ داروں سے قرض اٹھا کر بیرون ملک جانے کی خواہش نے انہیںبیرون ملک تک تو پہنچا دیا ہے لیکن ان کی واپسی کی راہ تکتے تکتے بوڑھے ماں باپ کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے۔
چھوٹے چھوٹے بچوں کے بہتر مستقبل کی امید لئے جو بہت جلد واپس آنے کا وعدہ کرکے گئے تھے آج ان کے بچے بھی جوان ہوچکے ہیں ، جس بہن کی شادی کیلئے سارا خرچ برداشت کرنے کا وہ اپنے ماں باپ سے کہہ کرگئے تھے وہ بہن آج بھی اپنے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی بال سفید ہونے پربھی اپنے بھائی کی راہ دیکھ رہی ہے ۔بوڑھے باپ کا بہتر علاج کروانے کیلئے جلد پیسے بھجوانے والوں کے بوڑھے باپ شاید اب اس دنیا میں بھی نہیں رہے ۔۔۔ایجنٹ مافیا اور دیگر سہانے خواب دکھانے والوں نے ہمارے ان بھائیوں کے ساتھ جو گھنائونا کھیل کھیلا ہے اس کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکتاہے ،وقت اور دوری کی ”زنجیر ”نے ان بھائیوں کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں وہیںکا کردیا ہے، ویسے فل ٹھنڈے ترین کمروں میں بیٹھ کر باتیں کرنا کسی حد تک آسان بھی ہے اور آرام دہ بھی ۔ محترم قارئین !ایک اندازے کے مطابق اس وقت سائوتھ افریقہ میں 2لاکھ سے زائد پاکستانی رہائش پذیر ہیں ، ان میں بہت کم تعداد ہے جو وہاں کی نیشنیلٹی ہولڈر ہے ، جبکہ زیادہ تر نے وہاںعارضی پناہ، شادی کرنے، بزنس اوررشتہ داری کی درخواست دے رکھی ہے ،یعنی 70فیصد پاکستانی اسائیلم سیکرز ہیں۔
ان کی کثیر تعداد کو مضبوط لیگل سٹیٹس یعنی ورک پرمٹ ، ریلیٹیو پرمٹ یا بزنس پرمٹ کیلئے پاکستانی پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے ،یہ سبھی پاکستانی اپنے اپنے روزگار سے وابستہ ہیں اور وہاں محنت مشقت کرکے خاصی تعداد میں رقوم پاکستان بھجواتے ہیں ، جو ان کے لواحقین کواپنی زندگی کی گاڑی چلانے میں کسی حد تک مددگار ہے ، پر جدائی کا خلاء ان کے پیاروں کو پیسوں کی بھوک سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ بے روزگاری ، بدامنی اور معاشی استحصال نے ان پاکستانی بھائیوں کو غیرمحفوظ کردیاہے اس ساری صورتحال کے باوجود ہمارے پاکستانی بھائیوں اپنے خاندان والوں کی محرومیوں کوبدلنے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں انکا بھی پاکستان اتنا ہی ہے جتنا ہمارا ہے پر یہاں کی حکومت نجانے کیوں ان کو نظر انداز کررہی ہے ، سائوتھ افریقہ میں مقیم پاکستانیوں کی خدمت کیلئے پریٹوریا میں موجود ہائی کمیشن اور عملہ پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے مسائل اور زہنی اذیت میں اضافے کاباعث بنتا جارہاہے ، آئے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سننے کو مل رہی ہے یہاں تک کہ اب تو وہاں مقیم پاکستانیوں نے پاکستان سائوتھ افریقہ ایسوسی ایشن کی وساطت سے اپنے پاسپورٹ ، قومی شناختی کارڈ کے حصول کیلئے پیش آنیوالی دشواریوں کو تحریری طور پر پاکستان میں ارباب اختیار تک پہنچانا شروع کردیا ہے، ساوتھ افریقہ میںعرصہ دراز سے مقیم محمد اکرم جو ایک پاکستان بزرگ شہری ہیں نے بتایا ہے کہ ہزاروں میل دور جاکر ہائی کمیشن آفس میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کیلئے درخواست دی ، چکر پے چکر اور تاریخ پہ تاریخ ۔۔۔ساتھ عملے کی بدتمیزی نے دلبراشتہ کردیا ہے۔
ہائی کمیشن آفس کے باہر عملے کے خلاف”احتجاج” روز کا معمول بن چکاہے ، جبکہ ہائی کمیشن میں موجود پاکستانیوں کی بے لوث خدمت کے دعویدار”حسنین چیمہ صاحب ”شاید حکام بالا کی حسین ”نگاہ”کے منتظر ہیںیا وہ کسی ”نگاہ خاص” میں ہیں جن کو ہماری پردیسی بھائی ہائی کمیشن کا ”ڈون ”گردانتے ہیں ا سکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جو ”چیمہ صاحب” کی نگاہ میں جچ گیا اسکا کام ہو گیا جو نہ جچا اس کیلئے شاید وہاں کے چکر کاٹنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، وہ جس کی چاہیں سلپ پھاڑ دیں، کراس لگا دیں اور جسے چاہیں پہلے ہی چکر میں OKقرار دے دیں لیکن ایسا کسی قسمت کے دھنی کے ساتھ ہی ہوا گا کہ وہ پہلے ہی چکر میں ”چیمہ صاحب”کی بارگاہ سے سرخرو ہوکر نکلا ہو، چیمہ صاحب تو خیر چیمہ صاحب ۔۔۔دیگر عملہ بھی انتہائی بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے میں پیش پیش ہے جیسا کہ خدانخواستہ یہ پاکستانی نہیں کسی اور ملک کے شہری پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ لینے آگئے ہیں ، اب یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ سب پاکستانی ہیں جو اپنا قومی اور قانونی حق کیلئے ٹھوکریں کھارہیں ، مینوئل شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہونے کے باوجود ”چیمہ صاحب”کی نگاہ کرم کا منتظر رہتاہے اب وہ ”نگاہ کرم”کب اٹھتی ہے یہ کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے، ہائی کمیشن کی بلڈنگ پر خاصی رقم خرچ کی جاچکی ہے اوربلڈنگ کا کمیونٹی ہال اور درودیواربھی وہاں کے عملے کو انسانیت کی تذلیل کرنے پر غصے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، دوران بارڈر جمپ کرنے اور دیگر کسی بھی نوعت کے مقدمات میں پھنسے اور جیل میں پڑے پاکستانی ہائی کمیشن کے ”خدمت ”گزاروں کے منتظر ہیں۔
ان کی پیروی تو دور کی بات ان کے لواحقین و متاثرین ہمدردی کے دوبول سننے کی بھی شاید قابل نہیں، مگر ان کے پاس شاید اتنا وقت نہیں کہ وہ ان کو نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرسکیںجبکہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی داد رسی کرنا ہائی کمیشن کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ،سائوتھ افریقہ میں وفات پاجانے والے کی میت کوسرکاری خرچے پر پاکستان بھیجنا تو درکنار ضروری سفری دستاویزات کیلئے بھی کئی دنوں کا انتظار معمول بن چکا ہے ، وہاں موجود پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ڈپلومیٹ ایریا میں سب ممالک کے سفارتخانوں جہاں دیگر ممالک کے لوگ بھی اپنے مسائل کے حل کیلئے آتے ہیں سب کے سامنے جو تذلیل پاکستانیوں کے ساتھ وہاں موجود ہائی کمیشن کا عملہ کررہاہے کسی دوسرے ملک کے سفارتخانے کا عملہ نہیں کرتا ، ہائی کمیشن کی وسیع و عریض بلڈنگ ہونے کے باوجود پاکستانیوں کی باہر روڈ پر لمبی لائنیں بنائی جاتی ہیں چاہے دھوپ ہو گرمی ہو، بارش ہو ”نوٹینشن”۔۔۔یاد رہے ایسا ہتک امیز رویہ صرف پاکستانی سفارتخانے کے باہر نظر آتا ہے ، ایسی ہی صورتحال وہاں سے سرمایہ پاکستان بھجوانے کی بھی ہے کہ جب تک ان کے پاس قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں ہوگا وہاں سے رقوم کی پاکستان منتقلی کیسے ممکن ہے ۔۔۔۔؟وہاں موجود دوہری شہریت کے حامل اور پاکستان سائوتھ افریقہ ایسوسی ایشن کے رہنمائوں نے بتایا کہ اس ساری صورتحال پر پاکستانی حکومت کو سائوتھ افریقہ کے ساتھ سفارتی سطح پر بات چیت کرنا ہوگی،مگر ان پاکستانیوں بھائیوں کو ابھی تک کسی اعلیٰ افسر نے ابھی تک ”تھوڑی سی لفٹ”کروانے کی زحمت نہیں کی جبکہ یہاں بیرون ممالک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو ”ووٹ”کا حق دینے کی باتیں کی جارہی ہیں جبکہ وہاں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حصول پاکستانیوں کی پہنچ سے دور ہوتا نظر آ رہا ہے۔
یہاں قابل صد احترام وفاقی وزیرداخلہ جناب چوہدری نثار صاحب سے میری ایک ہمدردانہ اپیل ہے یہ اپیل سائوتھ افریقہ میں مقیم تمام پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے ہے کہ جہاں وہ پاکستان کے امیج کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں کچھ تھوڑا وقت سائوتھ افریقہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر بھی ”نگاہ کرم ”فرمائیں اور وہاں موجود ہائی کمیشن کے عملے کی بھی خبر لیں اور اگر ممکن ہوسکے تو پریٹوریاہے ساتھ ساتھ ڈربن ، کیپ ٹائون، پورٹ الزبتھ سمیت دیگر علاقوں میں قونصل خانے بنا دے تو شکایات میں یقینی کمی آسکتی ہے اور پاکستانیوں کی خدمت کا سلسلہ مزید فروغ پاسکتا ہے، چوہدری صاحب کے اس محب وطن اقدام سے سائوتھ افریقہ میں موجود پاکستانیوں کے حوصلے بلند ہونگے اور وہ ساری زندگی چوہدری صاحب کے احسان مند بھی رہیں گے، سائوتھ افریقہ میں پاکستانیوں کی حقیقی وعملی خدمت کے جذبے سے سرشار اور محب وطن ”سفیر”کو ہی تعینات کیا جائے (ویسے تو ہمارے سبھی سفیر ان حب الوطنی کی ان صفات کے حامل ہوتے ہیں)،یہاں مجھے یاد آیا آجکل تو میرے بہت پیارے اور محترم زبیر گل صاحب کو اوورسیز پاکستانیوں کی خدمت کا بھی سرکار ی طور موقع ملا ہے گل صاحب بھی آخر میں پاکستان سائوتھ افریقہ ایسوسی ایشن کے رہنمائوں کو خراج تحسین پیش کرتاہو جو اپنی مدد آپ کے تحت پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی داد رسی کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ،میں ان تمام رہنمابھائیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، اللہ رب العزت ہمیں اپنے پاکستانی بھائیوں کی حقیقی خدمت کرنے کا فریضہ سرانجام دینے کی مزید توفیق عطا فرمائے اور اس ارض پاک کو مزید ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرے (آمین)۔