تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ چند دنوں سے افغان امن کے حوالے سے روس کے شہر ماسکو میں کانفرنس کے بارے خبریں گردش کر رہی ہیں اس حوالے سے چند ماہ قبل بھی کوششیں کی گئیں جن میں افغان امن پر اتفاق کیا گیا اسی ضمن میں اگلے ماہ ماسکو میں روس چائنہ افغانستان پاکستان بھارت اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک کے وفوداکٹھے ہوں گے۔امریکہ کا شمولیت سے انکار کئی شکوک و شبہات کو حقیقت کی طرف لے جائے گا۔افغانستان ایک اسلامی ملک ہے جو سنٹرل ایشیاء میں پاکستان ایران ترکمانستان ازبکستان تاجکستان اور چائنہ کے ساتھ واقع ہے۔جغرافیائی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اسی وجہ سے دنیا کی نظریں یہاں سے ہٹتی نہیں۔قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔
ایشیائی ممالک کی تجارت کے لئے سنٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔1980 سے دہشتگردی کی آڑ میں ہے۔روس امریکہ اور دوسرے مغربی اتحادی اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔بھارت نے بھی افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ جما کر پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں کا فائدہ اٹھا کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف بھڑکانہ شروع کر دیا۔اس سے قبل پاکستان افغانستان کے تعلقات قدرے بہتر تھے پاکستان نے تاریخ کی سب سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔حالات یکسر نہیں رہتے بدلائو آتا رہتا ہے۔منفی بدلائو بھی ہو سکتا ہے اور مثبت بھی۔سویت وار کے بعد امریکا کوافغانستان کو ایک خودار اور پر امن ریاست بنانا تھا مگر امریکہ نے اپنا مقصد پورا ہوتے ہی اپنا رویہ بدل لیا۔دہشتگردی کی آڑ میں ہزاروں کی تعداد میں فسادیوں نے جنم لیا۔مذہب عزت کلچر سب کو پامال کیا گیا۔امریکی کھیل کی بدولت افغانستان ایک صدی پیچھے ہی رہ گیا۔ترقی و خوشحالی پر روک کی چھاپ لگ گئی۔پاکستان نے بھی اس دہشتگردی سے بڑے نقصانات اٹھائے مگر وقت بدلا پاکستان نے اپنی غلطیوں کو بھانپا ان سے سیکھا اور مثبت راہ کو چنا۔آج واقعی پاکستان اپنے فہم کی وجہ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
گزشتہ بدلتی صورتحال کو افغان حکومت نہ بھانپ سکی یا پھر ایسا چاہتی ہی نہیں۔شاید گزشتہ صدی سے کچھ نہیں سیکھا۔اسی لئے اپنی تباہی کے سودے خودہی کر رہی ہے۔خود کو خود مختار بنانے کی بجائے دوسروں پر انحصار رکھا ۔اب وقت کی سمت افغانستان کے لئے پھر موزوں ہے بلکہ بہت ہی زیادہ موزوںہے۔چین اور دوسرے ممالک نے پاکستان میں امن کی بنا پر اسے محفوظ ملک گردانتے ہوئے سی پیک کا مرکز بنانے کا ارادہ کیا جس پر کام جاری ہے جو شاید چند برسوں تک پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔پاکستان کے ساتھ افغانستان 2650 کلو میٹر لمبی سرحد کے ذریعے منسلک ہے بلکہ آر پار رہنے والے ایک ہی زبان کلچراور مذہب کے لوگ ہیں۔افغانستان براہ راست اس روٹ کا حصہ ہے۔اسی لئے پاکستان افغان امن کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔دوسری طرف افغانستان کی سرزمین سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔افغانستان کو بھارتی چالاکیوں میں آنے کی بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔پاکستان کا امن افغانستان کے ساتھ جڑا ہے درست ہے۔اسی طرح پاکستان کے ساتھ افغانستان کے پاس بھی سی پیک سے اقتصادی ترقی کے مواقع موجود ہیں۔اب افغانستان پر ہی منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے ڈیل کرتا ہے۔
اپنی تباہی کو پریفر کرتا ہے یا مسترد کر کے ایک اقتصادی ملک بن کر ابھرتا ہے۔ماضی میں روس واقعی افغان امن کی تباہی کا باعث بنامگر صورتحال بدل چکی ہے۔اب دنیا کی بڑی طاقتیں جنگ کی جگہ معاشی ترقی پر یقین رکھتی ہیں۔یہی ابھرتی طاقتوں کا وطیرہ ہے۔گزشتہ چند عرصے سے پاکستان روس ایران اور چائنہ افغانستان میں امن کے لئے تہہ دل سے کوشاں ہیں۔کیونکہ سی پیک کی مکمل افادیت سے مستفید ہونے کے لئے افغانستان میں امن بہت ضروری ہے۔افغانستان کے امن سے ہی پاکستان کا امن منسلک ہے۔پاکستان سی پیک کا مرکز ہے۔یہی ایک قریبی راستہ ہے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا اور افغانستان میں امن کی بدولت ہی ایشیائی ممالک میں تجارت کو مزید پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ افغانستان میں امن سے ہی چائنہ پاکستان ایران اور روس کو فائدہ ہے۔
موجودہ امن کوششیں اور ماسکو کانفرنس بھی سی پیک کی افادیت سے مستفید ہونے اور اسکی تکمیل کے لئے ہے۔افغانستان ایسا خوش قسمت ملک ہے جو براہ راست سی پیک کا حصہ ہے۔اور جسکی ترقی اور امن کے لئے دوسرے ممالک مسلسل تگ و دو میں ہیں۔مگر شاید افغانستان سنجیدہ نہیں افغانستان کی سنجیدگی اسے ترقی یافتہ ملک بنا سکتی ہے۔اور غیر سنجیدگی مزید افلاس کی طرف دھکیلے گی۔اب فیصلہ افغانیوں کے ہاتھوں میں ہے۔امریکہ کا افغان امن ماسکو کانفرنس میں شرکت سے انکار دہرے معیار کا بیان ہے۔جو ایک سپر پاور کو ذیب نہیں دیتا ۔بلکہ کئی شکوک شبہات کو حقیقت کے قریب لے جاتا ہے جس سے امریکی دہرا معیار واضح ہوتا ہے امریکہ کو اس سے متعلق نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو ماسکو کانفرنس میں بھارتی ہٹ دھرمیوں اور افغانی الزامات کو مد نظر رکھ کر شرکت کرنی چاہئے اور بھی بہتر ہو اگر پاکستان اس کانفرنس میں شرکت سے پہلے مختلف نقطوں پر تبادلہ خیال کر لے۔جیسے چائنہ روس اور ایران کو اعتماد میں لے کر بھارتیوں کو باز آنے اور افغانیوں کو تعاون کرنے کا زور ڈالے۔اس کانفرنس کا فائدہ اسی صورت میں ہے اگر افغانستان اپنے خیر خواہ اور دشمنوں کو بھانپ لے اور بدلتی صورتحال سے سیکھ کر اپنے امن اور ترقی کو پریفر کرے نا کہ بھارتی چالاکیوں کی گرفت میں رہے۔اگلے مہینے تک پاکستان کو اس کانفرنس میں، حقیقی پہلوئوں کو اجاگر کرنے، اس کے بارے سوچ کر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان خطے میں امن کے لئے بہترین کردار ادا کر سکے۔