تحریر : راؤ خلیل احمد آج فرانس کی آبادی 6 کروڑ 69 لاکھ 90 ہزار 826 ہے۔ جو کہ پاکستان کی آبادی سے تقریبا”ایک تہائی ہے۔ جن میں رجسٹرڈ ووٹر 4 کروڈ 48 لاکھ 34 ہزار ہیں۔ 2012 کے صدارتی الیکشن میں رجسٹر ووٹو کی تعداد 4 کروڑ 60 لاکھ 66 ہزار 360 تھی۔ جو کہ 2012 کے صدارتی الیکشن سے تقریبا” 12 لاکھ 32 ہزار کم ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ووٹ بڑھنے کی بجائے کم ہوا ہے اور اگر ہم 2002 اور 2007 کے صدارتی الیکشن میں رجسٹر ووٹروں کی تعداد کا جائیزہ لیں تو پتا چلے گا کہ 2002 کے صدارتی الیکشن میں رجسٹر ووٹروں کی تعداد 4 کروڑ 11 لاکھ 91 ہزار 169 تھی اور 2007 کے صدارتی الکیشن میں رجسٹر ووٹوں کی تعداد 4 کروڑ 44 لاکھ 72 ہزار 733 تھی۔ 2002 سے 2007 تک رجسٹرڈ ووٹوں میں تقریبا” 47 لاکھ کا اضافہ ہوا اور 2007 سے 2012 تک تقریبا” 16 لاکھ ووٹروں کا اضافہ ہوا۔
اور 2012 سے 2017 تک کے سفر میں تقریبا” 12 لاکھ 32 ہزار رجسٹر ووٹروں کی کمی ہوئی ہے۔ اس ترقی معکوس کی وجہ کیا ہے قابل غور نقطہ ہے شائد 13 نومبر 2015 کی شام کا حادثہ یا شائد یورپ کے تیزی سے بدلتے ہو حالات ! وجہ کچھ بھی ہو 23 اپریل کو فرنچ لوگ اپنے نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے۔ پہلے ٹوور میں 11 امیدوار ہیں ، برسر اقتدار سوشلسٹ پارٹی کے Benoît Hamon ، حزب اختلاف ۔UMP ۔ کے François Fillon فرنٹ نیشنل کی Marine Le Pen ، ۔آزاد امیدور 39 سالہ نوجوان سیاستدان Emmanuel Macron اپنی جاندار گفتگو ، پراگرسیو پروگرامز اور بیلنس سوچ کی وجہ سے ترقی پسند فرانسیسی عوام میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ۔ Nicolas Dupont-Aignan ،Nathalie Arthau ، Cheminade Jean Lassalle ، François Asselineau ، Philippe Poutou ،Jacques Cheminade اور Jean-Luc Mélenchon بھی امیدوار ہیں ۔
فرانس میں پہلے راؤنڈ میں ووٹ کا ٹرن آوٹ 80 فیصد تک رہنے کی توقع ہے ۔ 2012 کے الیکشن کو مدنظر رکھیں تو پہلے ٹوور میں حکمران پارٹی 28 فیصد حزب اختلاف 27 فیصد اور فرنٹ نیشنل 18 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی تھی۔ مگر فرانس کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہو نوجوان Emmanuel Macron ۔ 26فیصد ووٹ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں جو یقینا” حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو ہی ڈنٹ ڈالیں گے ، فرنٹ نیشنل اپنے 18 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر کھڑی نظر آتی ہیں مگر ابھی وقت باقی ہے سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔