تحریر : افضال احمد انسان کی زندگی میں ایسے لمحات کم ہی آتے ہیں کہ جب انسان خود اپنی عدالت قائم کرے’ خود ہی ملزم ہو’ اپنے ہی خلاف مقدمہ دائر کرے’ خود ہی اس کے مختلف پہلوئوں پر صفائی پیش کرے’ خود ہی جج ہو اور خود ہی کو مجرم بھی ثابت کرے اور بعض اوقات خود کو باعزت بری بھی کر دے۔یہ عدالت احساس کی عدالت کہلاتی ہے۔ انسان بہت کم اس عدالت میں آتا ہے کیونکہ اس کے لئے عزم و ہمت چاہئے ہوتی ہے اور تنہائی کے لمحات درکار ہوتے ہیں۔ یہ وہ عدالت ہے جہاں انسان اپنے ارادوں کا جائزہ لیتا ہے اور حقائق کو سمجھتا ہے’ ماضی کا احتساب کرتا ہے’ حال پر توجہ دیتا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ یہ عدالت بعض واقعات کے رد عمل کے طور پر اور بعض اوقات اچانک جذباتی کیفیت میں قائم ہو جاتی ہے’ اس کے لئے کسی کورٹ کی بلند و بالا عمارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس عدالت کے ذریعے انسان کو سزا یا جزاء کے طور پر جو چیز ملتی ہے اسی کا نام کامیابی ہے۔یعنی احتساب ایک ایسا عمل ہے جس کے بعد ہر صورت میں انسان کو کامیابی ملتی ہے۔ یہ عدالت روزانہ رات کو سونے سے قبل بستر پر لیٹنے کے بعد بھی قائم کی جا سکتی ہے ۔ اس کے لئے چند لمحات درکار ہیں۔ اس کے بعد ہر آنے والی صبح اپنے ساتھ چوبیس گھنٹے پر مشتمل دن رات لاتی ہے جو آپ کے لئے عمل کی ایک شاہراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ اس شاہراہ پر اپنے مقاصد اور منزل کو سامنے رکھتے ہوئے سفر کرتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ صبح ہر غریب’ امیر’ چھوٹے’ بڑے’ مرد و خواتین حتیٰ کہ ہر ایک کو ملتی ہے۔ اسی انداز سے ہر زندہ شخص کو رات کے لمحات بھی ملتے ہیں۔ گویا عزم کی صبح اور احتساب کی رات ہر انسان کو ملتی ہے۔ دن اور رات میں انسان کو ”ایک ہزار چالیس سو چالیس منٹ” ملتے ہیں ۔ بس یہی وہ دولت اور وسائل کی مقدار ہے جو ہر زندہ شخص کو بلا تفریق ملتی ہے۔
ہمارے گھر کے پاس ہی ایک شخص کا انتقال ہو گیا میں اُس شخص کو تقریباً پچھلے 10 برس سے دیکھ رہا تھا کہ وہ دَر بدر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ ایک وقت تھا اس شخص کے پاس دھن دولت بیوی بچے ‘ تمام گھر والے سب کچھ تھا’ اس شخص کی زندگی کی خوشیاں لوٹنے والے اس کے اپنے ہی تھے۔ اس شخص کے گھر والوں نے اس کی زندگی برباد کر ڈالی اور اُس شخص نے اپنے گھر والوں کو اپنا ہمدرد جانتے ہوئے اُن کی ہر بات مانی یہاں تک کہ اپنی بیوی کو گھر والوں کے کہنے پر ناجائز طلاق دے دی اور بچوں کو بھی قانونی طور پر ہمیشہ کیلئے بیوی کے سپرد کر دیا۔ سنا ہے پچھلے 20 سال سے یہ شخص اکیلا ذلیل و خوار ہو رہا ہے کوئی اس کا اپنا اس کی خبر تک نہیں لیتاتھا آخر بیچارہ سسک سسک کر موت کے منہ میں چلا گیا۔
چند روز قبل میری ملاقات اُس شخص سے ہوئی تھی تو اس نے مجھے یہ ہی کہا کہ میں نے جنہیں اپنا ہمدرد جانا انہوں نے مجھے جیتے جی مار ڈالا ہے۔ اپنی بیوی بچوں کو یاد کرتا اور دن رات روتارہتا’ اس کے اپنے جنہوں نے اسے برباد کیا اُنہوں نے کبھی اس کو سینے سے بھی نہ لگایا’ ایک لمحے کے غلط فیصلے (ناجائز طلاق) نے اس کی پوری زندگی برباد کر ڈالی۔ جن بہن بھائیوں ماں باپ کے کہنے پر اس نے اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ دیا اس کا انجام یہ ہوا کہ اُس شخص کو اُس کے انہیں بہن بھائیوں نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ تم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تو رشتہ نبھا نہیں سکے اب ہماری اور ہماری اولادوں کی زندگی کو بھی خراب کرو گے۔ اس لئے ہمارا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں’ اس شخص کے ماں باپ نے بھی اسے خود سے الگ کر دیا۔
اس شخص کے جنازے میں شرکت کی تو عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملے جنہیں دیکھ کر بہت ہی دکھ ہوا ‘ میں نے دیکھا سب بہن بھائی اُس کی لاش پر ماتم کر رہے ہیں اور اس کی لاش پر اتنے گلاب کے پھول بکھیر دیئے کہ سفید کفن نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ میں نے سوچا یہ وہی اس کے اپنے ہیں جنہوں نے اس لاش کی زندگی میں کانٹے بوئے اور عرصہ بیس سال سے اس سے میل جول بھی ختم کر دیا تھا اور آج جب اُس کے تن سے روح بھی جدا ہو گئی تو سب بہن بھائی رشتے دار اُس کی لاش رکھ کر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اور محبت کا اظہار کرنے کیلئے لاش کو گلاب کے مہکتے پھولوں سے ڈھانپ دیا۔
ارے بھئی! سب دھوکہ ہے’ دنیا میں تقریباً سب رشتے دھوکے میں مبتلا ہو تے چلے جا رہے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہے’ نہ بھائی بھائی کا رہا نہ بہن بہن کی رہی ہر کوئی ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کو لگا ہے۔ 15 خاندان میں نے ایسے دیکھے ہیں کہ ماں باپ امیر اولاد کو تو سینے سے لگا رکھا ہے اور غریب اولاد کو خود سے مکمل طور پر الگ کر دیا۔ جب سماج میں والدین ہی ایسا سلوک کرنے لگیں گے تو پھر خودکشی کا رواج تو پیدا ہو گا۔ آج کل دو وقت کی روٹی کھلانے کیلئے ماں باپ تیار نہیں تو کسی اور سے امید لگانا بیوقوفی ہے۔ یاد رہے میں سب والدین کی بات نہیں کر رہا بہت سے اچھے اور اولاد میں انصاف رکھنے والے والدین اب بھی سماج میں موجود ہیں جن کی وجہ سے سماج قائم ہے۔ یہاں بس اتنا کہوں گا خدا کا واسطہ ہے زندہ رشتوں سے محبت کرو مردہ رشتوں سے محبت کرنے سے کبھی دلی سکون حاصل نہیں کرپائو گے۔
نامور سماجی رہنما صائمہ عامر خان ایڈووکیٹ اکثر فرماتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جس رفتار سے برائی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے دگنی رفتار میں برائی کو ختم کرنے والے جنم لے رہے ہیں لیکن برائی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے’ اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ ہمیں برائی ہمیشہ دوسروں میں نظر آتی ہے خود میں نہیں’ جتنے لوگ اس وقت برائی کو ختم کرنے کیلئے سماج میں متحرک ہے اگر یہ سب صرف اپنے اندر کی برائی کو درست کر لیں تو انشاء اللہ سماج میں بہت حد تک بہتری آئے گی۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو لوگ عوام کو پیار محبت اور انسانی حقوق سے آگاہ کرتے ہیں ان میں سے اکثریت اپنے گھروں میں خود ”فسادی و جلاد” کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب تک معاشرے کو سدھارنے کے دعویدار خود ٹھیک نہیں ہوں گے معاشرہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے اور اپنی تحریروں میں لکھی اصلاحی باتوں پر عمل کرنے والا بنائے۔
سونے سے قبل ہمیں اپنے سارے دن کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے مثلاً جس ذات کا دیا کھا رہے ہیں جس کا دیا استعمال کر رہے ہیں اُس کے بلانے پر مسجد میں نماز کیلئے گئے؟ آج کتنے لوگوں کا دل دکھایا؟ کتنے لوگوں سے رشوت لی؟کتنے لوگوں کو پانی ملا دودھ بیچا؟ کتنے لوگوں کو اچھی سبزی و فروٹ دکھا کر تولتے وقت ناقص تول دیا؟ کتنے لوگوں میں جھگڑا کرانے کا باعث بنے؟ کتنے لوگوں کی غیبت کی؟ دفاتر میں ڈیوٹی صحیح طور پر انجام دی؟ کاروبار میں حلال و حرام کا خیال رکھا؟ چھوٹی سی چیز بیچنے کیلئے کتنے جھوٹ بولے؟ سوشل میڈیا پر کتنے لوگوں کو دھوکہ دیا؟ سوشل میڈیا کا کتنا غلط استعمال کیا؟ آج موبائل پر کتنا وقت برباد کیا؟اپنے ماں باپ کی خوشی کیلئے کتنا وقت نکالا؟ اپنے بیوی بچوں کیلئے جو کمایا حلال تو ہے؟ جھوٹے کو سچا’ سچے کو جھوٹا تو نہیں ثابت کر دیا۔
بچپن میں جب سکول سے پیپر دے کر گھر آتا تو میرے والد محترم (اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے) مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ ”بیٹا آج پیپر کیسا ہوا”؟ ایک دن میرا پیپر ذرا خراب ہو گیا میرے چہرے کو دیکھ کر میرے والد محترم سمجھ گئے کہ آج کچھ گڑ بڑ ہے لیکن میں نے ڈر کے مارے جواب دیا ”ابو جان میرا پیپر بہت اچھا ہوا ہے” حالانکہ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ میں نے آج پیپر میں جو ”گل کھلائے” ہیں میرا اس پیپر میں پاس ہونا مشکل ہے۔ پھر اس موقع پر میرے والد محترم نے پیار بھرے لہجے میں فرمایا کہ ”بیٹا جو انسان پیپر دے کر آتا ہے اُسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ اس پیپر میں پاس ہو گا یا فیل ہو گا”۔ اُس وقت تو والد محترم کی بات میرے سر سے گزر گئی یعنی مجھے سمجھ میں نہ آئی لیکن آج جب بڑے ہوئے تو سمجھ آئی کہ والد محترم صحیح فرما رہے تھے۔
یہی مثال ہمارے پورے دن کی ہے اگر ہم اپنے پورے دن کی کارکردگی پر رات کو نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ آج ہم نے سارا دن کیا ”گل کھلائے” کتنے اچھے کام کئے اور کتنے برے کام کئے۔ اس عادت کے اپنانے سے انشاء اللہ ایک فائدہ تو ہو گا کہ ہم آئندہ آنے والے دن کو اچھا گزارنے کی نیت ضرور کرکے سوئیں گے ‘ سونے سے پہلے دل ضرور گواہی دے گا کہ ”نہیں یار بہت گناہ کر لئے’ بہت دھوکے دے لئے’ صبح سے سب برائیاں چھوڑ دوں گا۔ اچھی و سچی نیت دل میں رکھ کر سو گئے اور اسی رات موت آگئی تو انشاء اللہ انجام اچھا ہو گا اور اگر رات کو ساری کارکردگی پر نظر ڈالنے کے باوجود برائی پر ڈٹے رہنے کی نیت کر کے سوئے اور موت آگئی تو برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔موت اٹل حقیقت ہے اور کوئی بھی رات ہماری زندگی کی آخری رات ہو سکتی ہے۔