تحریر : عبدالوارث ساجد اسلنجتون شہر سے نکلنے والے ایک انگریزی اخبار ”ایفنج سٹار” نے اپنی 31 مارچ 1846ء کی اشاعت میں صفحہ اول پر ایک بڑا سا اشتہار شائع کیا کہ ”کل یکم اپریل کو اسلنجتون شہر کے سب سے بڑے زراعتی فارم میں گدھوں کی نمائش ہوگی اور زبردست میلہ لگے گا۔” اس وقت یہ اخبار اپنی سرکولیشن میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ لاکھوں نہیں تو بلاشبہ اس کے پڑھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ضرور تھی۔ قارئین نے جب اخبار میں اشتہار دیکھا تو خوشی سے دیوانے ہوگئے انہیں ایک دلچسپ اور بھرپور تفریح میسر آئی تھی لہٰذا اگلے روز صبح ہوتے ہیں لوگ گھروں سے نکلے اور اپنے ضروری کام چھوڑ کر زراعتی فارم کی طرف خوشی خوشی پہنچنے لگے۔ دن کا آغاز ہوتے ہی لوگوں کی تعداد ہزارں تک جا پہنچی ہر طرف شائقین کے سروں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ تاحد نگاہ لوگ جمع تھے۔
بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین سب شامل تھے لیکن اس زراعتی فارم میں انسانوں کی حاضری تو ہزاروں میں تھی لیکن ”گدھا” کوئی بھی نہ تھا۔ لوگ انتظار کرتے رہے، نمائش کے لئے جمع ہوتے رہے۔ جب دن کا کافی حصہ بیت گیا اور انتظار کرتے کرتے لوگ بھی اکتا گئے تو بالآخر انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کردیا کہ ”گدھوں کی نمائش” کب شروع ہوگی اور نمائش میں پیش کئے جانے والے ”گدھے” کب آئیں گے… کچھ وقت اور گزرا تو لوگوں کی اکتاہٹ اور بڑھ گئی، صبح سے جمع ہونے والے ہزاروں شائقین میں سے سینکڑوں انتظار کی کوفت اور تھکاوٹ سے چور ہوچکے تھے سو اس اکتاہٹ کے پیش نظر لوگوں کا اصرار بڑھنے لگا۔ آپس کی تکرار شروع ہوگئی لوگ ایک دوسرے سے پوچھ کر بھی مایوس ہوگئے جب دن کا کافی حصہ بیت گیا اور صبح دوپہر میں تبدیل ہونے لگی تو سورج کی تیز شعاعوں نے لوگوں کو مزید انتظار کی اجازت نہ دی۔ سب کے چہروں پر تھکاوٹ کے آثار تھے اور وہ سب انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کی آس میں پھر بھی جمع تھے۔ اچانک ایک طرف سے اعلان کی آواز ابھری کوئی کہہ رہا تھا۔
”آپ کی حاضری بتا رہے ہے کہ آپ کو ”نمائش” کا بہت شوق ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ کی نگاہیں کس کی منتظر ہیں اور زبانوں پر عجب سوال ہیں کہ ”نمائش” کب شروع ہوگی حالانکہ نمائش تو اپنے اعلان کے مطابق اپنے مقررہ وقت سے پہلے کی شروع ہے۔ رہی بات ”گدھوں” کی تو اخبار میں اشتہار تھا کہ ”زراعتی فارم” میں گدھوں کی نمائش ہے۔ سو جو لوگ نمائش میں آئے ہیں یقینا وہ خود ہی ”گدھے” ہیں۔
شیروں کو غسل اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ لندن سے شائع ہونے والے اخبار ”ڈریک نیوز لیٹر” کے متعلق ہے کہ اس اخبار نے اپنی 2 اپریل 1698ء کی اشاعت میں لکھا کہ یکم پریل کو کچھ لوگوں کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو لندن ٹاور میں شیروں کو غسل دیا جائے گا۔ وقت مقررہ پر لوگوں کی کافی تعداد جمع ہوگئی۔ لوگ انتظار کرنے لگے لیکن سارا دن گزر گیا ”شیروں کو غسل” دینے کا نہ کوئی مظاہرہ ہوا اور نہ شائقین مشاہدہ کرسکے۔ لوگ انتظار میں رہے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ آج یکم اپریل ہے اور انہیں اسی مناسبت سے ”بیوقوف” بنایا گیا ہے تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس پلٹ گئے۔
احمقوں کا دن ”اپریل فول” کی تاریخ میں یہ دو واقعات ایسے ہیں جو اس کی ابتدا اور وجہ تسمیہ کا پتہ دیتے ہیں۔ اپریل کا مہینہ عیسوی سال کا چوتھا مہینہ ہے۔ اس کی پہلی تاریخ کو انگریز ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کے لئے شرارتیں، مذاق اور بے ہودقسم کے ہتھکنڈے اپناتے تھے۔ ان کا ہاں ماہ اپریل کی پہلے دن کو “Allfool Day” یعنی احمقوں اور پاگلوں کا دن کہا جاتا ہے۔ اس دن سارے مغرب میں جی بھر کر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کے لئے ناٹک کئے جاتے ہیں اور مذاق اور استہزاء سے ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب یہ بیماری اہل یورپ و مغرب سے نکل کر مشرق اور دیگر خطوں میں مقیم مسلمانوں میں سرایت کرنے لگی ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ یکم اپریل کو پاکستان میں بھی مغربی عوام کی تقلید میں ”اپریل فول” منایا جاتا ہے اور لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے اس میں اور بھی تیزی آئی ہے اس دن اس قسم کے مذاق بھی کئے جانے لگے ہیں کہ جن سے حیا و شرم کا عنصر بھی ختم ہوگیا ہے۔ کچھ ایسے سنگین مذاق ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ”اپریل فول” کب شروع ہوا اور کس نے آغاز کیا، اس بارے میں حتمی طور پر کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا اول الذکر دو واقعات سے ”اپریل فول” کے متعلق یہ ذکر ضرور ملتا ہے کہ اس رسم کا آغاز فرانسیسیوں نے کیا۔ فرانس میں 1524ء میں نیا کیلنڈر جاری کیا گیا تو کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی نئے کیلنڈر کے حامیوں نے مخالفین پر طعن و تشین کی اور انہیں رسوا کرنے کے لئے مذاق کا نشانہ بنایا اور استہزاء کے ذریعے ان کی تحقیر کی۔ اس کے متعلق بھی یہی مشہور ہے کہ یہ کوئی ٹھوس دلیل نہیں بلکہ کچھ لوگوں کا ذہنی خیال ہے کہ جس طرح بہت سے دیگر خیالات مشہور ہیں کہ 21 مارچ کو دن اور رات برابر ہو جاتے ہیں لہٰذا اس ماہ کے ختم ہوتے ہی اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو ”اپریل فول” منایا جاتا ہے… کچھ حضرات نے لکھا ہے کہ بت پرست قوم کی ایجاد ہے۔ بت پرست لوگ اپنی عبادت میں ایسا بھی کیا کرتے تھے لیکن اس کے آثار ختم ہوگئے۔ ان سے آہستہ آہستہ یہ رسم دیگر لوگوں تک پہنچی اور اب مغرب کا تہوار ہے… بعض احباب اسے موسم کے ساتھ ملاتے ہیں کہ مارچ اپریل میں پیار کا موسم ہوتا ہے۔ خزاں کی اداسی ختم ہوتی ہے اور بہار اپنی محبت اور تازگی کا پیغام سناتی ہے درختوں پر تتلیاں اڑتی ہیں۔ درخت سبزے کا لبادہ اوڑھ کر دلچسپ نظارہ پیش کرتے ہیں لہٰذا اس خوش کن منظر کی وجہ سے خوشی میں ”اپریل فول” منایا جاتا ہے۔
اپریل کی وجہ تسمیہ حافظ محمد ذکریا کی تحقیق کے مطابق اپریل April انگریز ی سال کا چوتھا مہینہ ہے۔ یہ قدیم کیلنڈر ایک لاطینی Aprilis سے مشتق (ماخوذ) ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ لفظ Aprillis سے نہیں بلکہ Aperire سے لیا گیا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر بہار کے آغاز یعنی پھولوں کے کھلنے کے موسم پر بولا جاتا ہے، اور مہینے کا نام ”اپریل” اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں نئے پھول نکل آتے ہیں اور موسم بہار کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے۔ کوئل اور دوسرے پرندے اپنی دلربا آوازوں سے موسم خزاں کو شکست دے چکے ہوتے ہیں۔ 1645ء سے پہلے تک فرانس میں سال کی ابتداء جنوری کی بجائے اپریل سے ہوتی تھی، مگر بعد میں فرانس کے حکمران شارل نہم نے اپریل کی بجائے جنوری سے سال کا آغاز کرنے کے لئے کہا۔ روم میں ”اپریل” کے بارے میں کچھ اور روایات پڑھنے کوملتی ہیں۔ مثلاً اس مہینے میں موسم بہار کے آغاز کی وجہ سے انہوں نے یکم اپریل کو ”خوشیوں کا خوبصورتی کے خدا کا دن” قرار دیا۔ انہوں نے ایک خوش قسمتی کی ملکہ بنائی ہوئی تھی جس کا نام انہوں نے ”فینوز” رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ یکم اپریل کو اس کی یاد میں مختلف تقریبات کرتے تھے۔ خصوصاً اہل روم کی بیوائیں اور دوشیزائیں اسی ملکہ کے نام سے منسوب عبادت خانے میں جمع ہوتی اور اپنے نفسانی جسمانی عیوب کو ظاہر کرتی اور دعائیں مانگتی تھیں کہ ان کے عیوب کے بارے میں ان کے خاوندوں کو پتہ نہ چلے۔ اپریل فول کی ابتداء کیسے ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔
پہلی روایت یہ رسم 1564ء میں فرانس سے شروع ہوئی۔ جب 1564ء میں نیا کیلنڈر جاری کیا گیا تو کچھ نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ ان منکرین کیلنڈر کو طعن و تشنیع اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور اس قبیح عمل کا آغاز یکم اپریل سے ہوا۔
دوسری روایت کہا جاتا ہے کہ شائد ایسا وقت تھا جب موسلادھار بارش سے اچانک دھوپ نکل آئی تھی۔ یہ قدرت نے نعوذ باﷲ انسانوں سے مذاق کیا تھا جب یہ واقعہ پیش آیا تو تب یکم اپریل تھی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: آکسفورڈ جونیرا انسائیکلوپیڈیا والیم نمبر 9 صفحہ نمبر 473 اور انسائیکلوپیڈیا رٹانیکا صفحہ 147 جلد نمبر 2) ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی اقوام نے اپریل فول کو ایک باقاعدہ تہوار کی شکل دی۔
تیسری روایت اپریل فول کے ذریعے بڑے سے بڑے آدمی کو بیوقوف بنایا جاتا ہے اور اسے بہرحال اس کے نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں، اس لئے وہ لوگ اپریل فول کو Poisson Baril بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن سورج برج حوت سے دوسرے برج میں داخل ہوتا ہے اور ”حوت” عربی میں مچھلی کو کہتے ہیں لیکن دوسری طرف بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ لفظ Possion ”باسون” سے تحریف شدہ ہے۔ ”باسون” کے معنی عذاب اور Possion کے معنی مچھلی کے ہیں۔ یہ درحقیقت اس تکلیف کی طرف اشارہ ہے جو عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر دی گئی تھی۔ چنانچہ ان کے عقائد کے مطابق یہ واقعہ یکم اپریل کو رونما ہوا تھا۔
انہی روایات کے پیش نظر فرانس میں بے وقوف بننے والے شخص کے لئے Fish کا لفظ مستعمل ہے یعنی جو پانی سے باہر تڑپ تو سکتی ہے مگر کر کچھ نہیں سکتی، اور اہل برطانیہ اور امریکہ یکم اپریل کو All fool day یعنی احمقوں کا دن کہتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس دن ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہیں جنہیں سننے والا سچ سمجھتا ہے اور پھر بعد میں اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ کچھ مغربی فلکیات خیال کرتے ہیں کہ یکم اپریل کا دن ویسے ہی منحوس ہے اور اپنی رائے کی اہمیت کے لئے وہ دلیل دیتے ہیں کہ اس دن پیدا ہونے والے افراد ذہنی استعداد اور صلاحیتوں سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک مغربی پروفیسر اور مشہور ماہر فلکیات اس کے بارے میں اپنے خیالات سپرد قلم کرتا ہے۔
”یکم اپریل کو پیدا ہونے والے افراد اپنے کام کی تکمیل کے لئے جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور اپنے مقاصد میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ اپنی غلطیوں کو شاذونادر ہی تسلیم کرتے ہیں اور ہر کام کی تکمیل میں بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خطرات سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ مستقل مزاجی جیسی صفات سے محروم ہوتے ہیں۔ اسی لئے اپنے کام کو ادھورا ہی چھوڑتے ہیں۔ اپنی رجائیت پسندی کے باعث اکثر بے وقوف بن جاتے ہیں۔”
اپنی اس بحث کو مزید طوالت دیتے ہوئے یہی ماہر فلکیات مسٹر Passoo عورتوں کی عادات و اطوار کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ: ”اس دن کو پیدا ہونے والی خواتین اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا نہیں جانتیں۔ بے سوچے سمجھے آگ میں کود جاتی ہیں۔” (بحوالہ کتاب Omazze) متنازعہ تاریخ دوسری تحقیق کے مطابق: اپریل فول ڈے کو ”آل فولز ڈے” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ کے متعلق کوئی واضح نظریہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کے آغاز کی درست تاریخ کا ریکارڈ موجود ہے۔ مغربی ممالک میں مقبول اس روایت کے آغاز کے متعلق قرین قیاس یہ ہے کہ اس کی ابتداء 1582ء میں فرانس سے ہوئی۔ اس سے قبل نئے سال کے تقریبات 25 مارچ سے یکم اپریل تک منائی جاتی تھیں۔ اس سال چارلس نہم ( کچھ روایت کے مطابق پوپ گریگوری XIII) نے قدیم جولین کیلنڈر کے بجائے گریگورین کیلنڈر رائج کرنے کا حکم جاری کیا جس کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم جنوری سے ہونے لگا۔ اس زمانے میں ابلاغ اور رابطے کا نظام بہت سست اور دقت طلب تھا۔ چنانچہ کئی برس تک بہت سے علاقوں میں لوگوں کو اس تبدیلی کا علم نہ ہوسکا۔ کئی مقامات پر لوگوں نے نئے کیلنڈر کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور 25 مارچ سے یکم اپریل تک نیا سال منانے کے رواج کو جاری رکھا۔ ان روایت پسند اور بے خبر لوگوں کو بے وقوف قرار دیا گیا اور مختلف طریقوں سے ان کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ روایت فرانس سے انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ پہنچ گئی اور بعدازاں برطانیہ اور فرانس کی امریکی کالونیوں میں بھی متعارف ہوگئی اور یکم اپریل کا دن دنیا کے بیشتر علاقوں میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے اور مذاق اڑانے کے لئے مقبول ہوتا گیا۔
اکثر مورخ اس وضاحت کو تسلیم کرتے ہیں تاہم مورخین اور محققین کے چند گروہ ایسے ہیںجن کا کہنا ہے کہ اپریل فول کا رواج گریگورین کیلنڈر متعارف کرائے جانے سے پہلے سے رائج تھا اور فرانس اور جرمنی میں 1508ئ، 1539ء اور 1564ء کے کئی ایسے حوالہ جات موجود ہیں جن میں اپریل فول کے ثبوت ملتے ہیں۔ علاوہ ازیں برطانیہ میں گریگورین کیلنڈر 1752ء میں اختیار کیا گیا جبکہ وہاں اپریل فول کا تصور بہت پہلے سے موجود تھا۔ جرمن لوگ یکم اپریل کو کسی اور وجہ سے اہمیت دیتے ہیں۔ 1572ء میں ہالینڈ پر سپین کے بادشاہ فلپ دوم کی حکومت تھی۔ ان دنوں اس علاقے میں جرمن باغی بھکاریوں کے روپ میں پھرا کرتے اور خود کو ”گویزن” (Guezen) کہلاتے تھے۔ یکم اپریل 1572ء کو انہوں نے ڈین بریل نامی چھوٹے سے ساحلی قصبے پر قبضہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی ہالینڈ کے دوسرے شہروں میں بھی شہریوں نے سپینی حکومت کے خلاف بغاوت شروع کردی جس کو روکنا سپینی آرمی کے کمانڈر ڈیوک آف البا کے بس سے باہر ہوگیا۔ جرمن زبان میں ”بریل” کا مطلب ”عینک” ہے چنانچہ لوگ مذاقاً کہنے لگے کہ Alba has lost his glasses (البا کا چشمہ کھوگیا ہے) یعنی درحقیقت وہ ڈین بریل کا قبضہ کھوچکا ہے۔ جرمنوں کو یہ مذاق اتنا پسند آیا کہ وہ ہر سال یکم اپریل کو یہ دن منانے لگے۔
مسخروں کی بادشاہت اس سلسلے میں ایک تیسرا نظریہ بھی موجود ہے جو ان دونوں سے مختلف اور دلچسپ ہے۔ 1983ء میں بوسٹن یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر جوزف بوسکن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ نظریہ پیش کیا۔ اس کے مطابق رومی حکمران کانسٹنٹائن (Constantine) کے عہد میں اپریل فول ڈے کا آغاز ہوا جب درباری مسخروںاور احمقوں کے ایک گروہ نے بادشاہ کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ سلطنت کا انتظام بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ محظوظ ہوا اور اس نے ایک مسخرے ”کوگل” (Kogel) کو ایک دن کی بادشاہت کا موقع دیا جس میں اس نے حماقت کے شاندار مظاہرے کئے۔ یہ رواج مقبول ہوگیا اور ہر سال یکم اپریل کو احمقوں کا دن منایا جانے لگا۔ پروفیسر بوسکن کے خیال میں احمق ان دنوں بہت عقلمند لوگ ہوا کرتے تھے اور مسائل کو پر مزاح طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ نظریہ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے ایک آرٹیکل میں شامل کیا گیا اور بہت سے اخبارات نے اسے شائع کیا اور اس نے عوام میں مقبولیت حاصل کی ۔ تاہم دو ہفتوں کے بعد پروفیسر بوسکن کے ایک بیان سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپی پی کو اپریل فول کا نشانہ بنایا تھا اور یہ سب کچھ صرف مذاق تھا۔
مختلف ممالک مختلف طریقے کئی ممالک میں اپریل فول کی تقریبات مختلف دورانیے کی ہوتی ہیں اور ثقافت کا باقاعدہ حصہ ہیں مثلاً سکاٹ لینڈ میں یہ دو دن منائی جاتی ہیں۔ دوسرے دن کو ”ٹیلی ڈے” Tilly day کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روز لوگوں کی پشت پر Kich me کے کاغذ یا کاغذ کی بنی ہوئی مچھلیاں چپکائی جاتی ہیں۔ روم کے لوگ 25 مارچ سے یکم اپریل تک ”ہلیریا” Hilaria کے نام سے بہار کے آغاز کا تہوار مناتے تھے جو اپریل فول میں تبدیل ہوگیا۔ میکسیکو میں اپریل فول کی روایت کا آغاز یوں ہوا کہ 28 برس کو کنگ ہیروڈ کی طرف سے متعدد معصوم بچوں کو ذبح کیے جانے کی یادگار منائی جاتی تھی جو آہستہ آہستہ یکم اپریل کو منائی جانے لگی اور اس کا مزاج افسردگی سے مزاح کی طرف بدل دیا گیا۔
کچھ ممالک میں اپریل فول ڈے متفرق دنوں میں منایا جاتا ہے۔ ایران میں اپریل فول ڈے تین اپریل کو منایا جاتا ہے یعنی نئے ایرانی سال کے تیرھویں روز، اس دن لوگ ایک دوسرے سے مذاق اور شرارتیں کرتے ہیں۔ اسے ”سہ از دہ بیدار” کہا جاتا ہے اور اس دن لوگ 13 عدد کی نحوست سے بچنے کے لئے گھروں سے باہر رہتے ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں یکم اپریل کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ دوپہر تک جاری رہتا ہے لیکن اگر کوئی دوپہر کے بعد کسی کو اپریل فول بنائے تو خود ہی بے وقوف کہلاتا ہے۔ ڈین مارک میں یکم مئی کو ”میج۔ کیٹ” (Maj-Cat) کہا جاتا ہے اور اس روز لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے تاہم ڈنمارک کے لوگ یکم اپریل کو ہی اپریل فول ڈے مناتے ہیں۔
کچھ یہودی آبادیوں میں ”پوریم سپیل” نامی روایت ہے جو بہت حد تک اپریل فول ڈے سے مماثلت رکھتی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی بہت بڑی کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کمپیوٹر کی بنیاد یکم اپریل 1976ء کو رکھی گئی تھی۔ احمق کا شکار اگرچہ برطانیہ میں اپریل فول کئی صدیوں سے بطور تہوار منایا جارہا ہے لیکن اٹھارہویں صدی سے پہلے اسے عام رواج کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اُدھر سکاٹ لینڈ میں یہ تہوار Hunting the Gowk ”احمق کا شکار” کے نام سے منایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سکاٹ لینڈ میں ”گاک” کوئل سے ملتے جلتے ایک پرندے کو کہتے ہیں۔ یہ پرندہ کئی ممالک میں حقارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
نیدر لینڈ میں بھی دنیابھر کی طرح یکم اپریل بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، مگر اس اہتمام کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ نیدرلینڈ میں اس تہوار کی جڑیں سولہویں صدی میں پیوست ہیں۔
یہ 1572ء کا تذکرہ ہے، جب نیدر لینڈ، سپین کے حکمراں فلپ دویم کے زیرنگیں تھا۔ اس دور میں مقامی باشندوں (ڈچ) پر مشتمل ایک حریت پسند گروہ سرگرم تھا۔ یہ گروہ خود کو ”گیوزن” (Geuzen) یعنی بھکاری کہلاتا تھا۔ یکم اپریل 1572ء کو گیوزن حریت پسندوں نے نیدرلینڈ کے ساحلی قصبے Den Briel پر قبضہ کرلیا۔ جس طرح میرٹھ کی چھاؤنی میں ہونے والی شورش سے ہندوستان گیر بغاوت نے جنم لیا تھا۔ اسی طرح ڈین بریل پر حریت پسندوں کا قبضہ نیدرلینڈر کے عوام کے لئے بیداری کا پیغام بن گیا ، اور سارا ملک سپینی راج کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔
نیدر لینڈ میں تعینات سپینی فوج کا کمانڈر ڈیوک آف البا تمام تر کوششوں کے باوجود اس بغاوت کو کچلنے میں ناکام ہوگیا۔ ڈچ زبان میں Briel کا مطب ہے ”عینک”۔ یوں ڈین بریل سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کو ڈچ عوام نے بریل کی نسبت سے اس پرُمزاح فقرے میں سمو دیا کہ … البا اپنی عینک گم کر بیٹھا۔ ڈچ عوام آج بھی یکم اپریل کو سپینیوں کے خلاف اپنا یومِ آزادی مناتے ہوئے یہ لطیف فقرہ دہراتے ہیں ، جس نے ایک تاریخی دن کو مزاح کا رنگ دے دیا ہے۔
انگریزی ادب کے باوا آدم کہلانے والے شاعرو ادیب جیوفرے چاسر Geoffrey Chaucer کی تخلیق کردہ کہانی Nun’s Priest’s Tale بھی اپریل فول کی بنیاد قرار پانے والے ماخذوں میں شامل ہے۔ یہ کہانی دو بے وقوفوں کا ماجرا ہے۔ ”ننرپریسٹس ٹیل” اس زمانے کے کیلنڈر کے مطابق 32 مارچ 1400ء کو تحریر کی گئی تھی، موجودہ کیلنڈر کے اعتبار سے یہ تاریخ یکم اپریل قرار پاتی ہے۔ احمقوں کی کہانی اور یکم اپریل کی مناسبت سے بعض حلقے ”ننرپریسٹس ٹیل” کو اپریل فول کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ گویا ویلنٹائن ڈے اور مختلف اقوام کے کئی دیگر تہواروں کی طرح اپریل فول کی شروعات بھی متنازع ہے۔ تاہم یہ تہوار دنیا کے اکثر ممالک میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ غالباً دنیا کا واحد تہوار ہے جو مکمل طور پر شوخی، شرارت اور مذاق سے عبارت ہے۔ یکم اپریل پر ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کا چلن عوام کے ساتھ سنجیدہ حلقوں میں بھی عام ہے اور تو اور ذرائع ابلاغ بھی اس دن اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین کو مذاق کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ کی تاریخ میں یکم اپریل کو کی جانے والی شوخیوں کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ اب انٹرنیٹ آنے کے بعد تو ایک عام آدمی بھی گھر بیٹھے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو مذاق کا نشانہ بنا سکتا ہے۔