تحریر : خنیس الرحمن جب مسلمان حکمرانوں میں اتفاق نہ رہا۔دین سے توجہ دور ہونے لگے۔شراب وکباب کی محفلیں سجنے لگیں ۔عشق و مشوقی کے مشاعرے منعقد ہونے لگے۔دینی مراکز کی بجائے ہرن مینار بننے لگے۔جب غرور اور تکبر آنے لگا۔اسی کا فائدہ انگریزوں نے اٹھایا اور تجارت کی غرض سے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگیا۔میسور کا حاکم سلطان حیدر علی اور اس کا بیٹا ٹیپو سلطان انگریزوں کے اس مشن کو ناکام بنانے کی کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام رہے جس کی وجہ اپنوں کا غداری کرنا تھا ۔ان غداروں کی وجہ سے انگریز بہت اندر تک آچکا تھا اور اب مسلمان انگریزوں کی غلامی میں آچکے تھے۔کوئی نہیں تھا جو مسلمانوں کی حالت زار پر غور کرتا۔سب کچھ چھین لیا گیا ،مراعات چھین لیں گئیں اور نوکریوں سے نکال دیا گیا۔
اسی زمانے میں شاہ ولی اللہ دہلوی اٹھ کھڑے ہوئے اور علماء کی ایسی کمک تیار کی جس نے انگریزوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔شاہ ولی اللہ کی رحلت کے بعد ان کا صاحبزادہ شاہ عبدالعزیز جانشین مقرر ہوا ۔جس نے مسلمان نوجوانوں کو میدان میں نکلنے کا حکم جاری کیا ۔دعوت وجہاد کا علم سر بلند کرنے کا حکم دیا ۔ان کی رحلت کے بعد ان کے بھتیجے شاہ اسماعیل شہید نے تحریک المجاہدین کی بھاگ دوڑ سنبھالی اور مرہٹوں ،انگریزوں اور سامراجی قوتوں کے خلاف کمر کس لی۔سید احمد شہید بھی ان کے ہم دم تھے ۔شاہ صاحب سری نگر میں درس بخاری پڑھاتے تھے ۔دو نوجوان شاہ اسماعیل سے درس بخاری پڑھنے کے لئے سری نگر کی جانب رواں دواں تھے ۔راستے میں بالا کوٹ میں پڑاؤ ہوا ۔وہاں ایک خاتون ملی جس نے ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے دونوں نے کہا ہم درس بخاری کے لئے شاپ اسمٰعیل شہید کی مجلس میں جارہے ہیں ،اس عورت نے کہا میرا جا کر پیغام شاہ صاحب کو دے دینا کہ بالا کوٹ کی بہنیں سکھوں کے بچے پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔
عصر حاضر کے محمد بن قاسم کے پاس جب یہ دونوں نوجوان پہنچے اور جاکر اس بالا کوٹ کی بہن کا پیغام شاہ اسماعیل کو سنایا ۔شاہ اسماعیل شہید نے سب طالب علموں سے مخاطب ہوکر کہا جب تک شاہ اسماعیل اپنی بالا کوٹ کی بہنوں کی عزتوں کو نہ بچا لے اس وقت تک بخاری نہیں پڑھائے گا۔شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کی قیادت میں مجاہدین کا قافلہ بالا کوٹ پہنچا ۔انگریزوں اور مرہٹوں کیساتھ مقابلہ جاری رہا بالآخر مجاہدین کے دونوں سپہ سالار جام شہادت نوش کرگئے ۔اس کے بعد تحریک مجاہدین کی کمان فضل الہی وزیر آبادی نے سنبھال لی۔جنہوں نے شہدائے بالا کوٹ کی تحریک کو آگے بڑھایا اور مسلمانان برصغیر کے ذہنوں میں ایک جو ش اور ولولہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف سر سید احمد خان اٹھے اور تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کو انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا کیا۔انہوں نے مسلمانوں کے دلوں سے احساس کمتری دور کرنے کی کوشش کی ۔ہندو بھی سرگرم ہوچکے تھے اور انہوں نے کانگریس کی بنیاد رکھی ۔جسکا مقصد انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں پر اپنا ہولڈ قائم کرنا تھا اور ظاہر یہ کیا کے جماعت تمام اقلیتوں کی نمائندہ جماعت ہے،یہ سب کے حقو ق ادا کرے گی ۔لیکن مسلمان کانگریس کے جال میں نہ پھنسے وہ جانتے تھے یہ محض ہمیں دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ہندو انگریزوں کیساتھ ملچکے تھے۔
تعلیمی میدان میں ہندو سب سے آگے تھے،مذہبی عبادات کیلئے مندروں کی تعمیر یں جاری تھیں ۔مسلمانوں کی مراعات ہندووں کے ہاتھوں میں آچکی تھیں۔بڑے بڑے عہدے ہندوؤں کے پاس تھے۔بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن چکے تھے۔انگریز بھی برصغیر کو ہندوؤں کے ہاتھ میں دے کر جانے کی تیاریاں کررہا تھا لیکن مسلمان حکمران جانتے تھے کہ ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے کیونکہ مسلما ن زیادہ دیر غلامی کی زندگی برداشت نہیں کرسکتے تھے،دوسری بات مسلمانوں کے رہن سہن ،رسم و رواج ،ثقافت،شادی بیاہ،اٹھنا بیٹھنا ،ملنا ملانا ،کھانا پینا سب کچھ ہندوؤں سے الگ تھلگ تھا ۔مسلمان مسجد میں دن میں پانچ مرتبہ اپنے رب کے حضور جھکتے تھے اور ہندو اپنے بھگوانوں کے سامنے جھکتے تھے اور کوئی بندر ،گائے ،چرند پرند کی پوجا کرتے تھے۔
اس لییب مسلمان قائدین نواب وقار الملک کی زیر قیادت میں ایک اجلاس بلاتے ہیں اور اس اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آتا ہے۔اب یہ تحریک گھر گھر جا کر مسلمانوں کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانے لگے ۔محمد علی جناح ۔محمد علی جوہر سمیت بڑے بڑے مسلمان رہنما الگ وطن کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔علامہ محمد اقبال اپنے اشعار کے ذریعے مسلمانوں میں جو ش و ولولہ پیدا کرنے لگے۔۱۹۳۰ء میں آلہ آباد کے اندر مسلم لیگ کا سالانہ اجتماع منعقد ہوتا ہے جس میں علامہ محمد اقبال مسلمانوں کا اشارہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف کرتے ہیں۔
ولایت (برطانیہ) سے پڑھ کر آنے والے طالبعلم رحمت علی ایک کتابچہ لکھتے ہیں جس میں اس اسلامی ریاست کا نام پاکستان تجویز کرتے ہیں ۔اب ہر طرف ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے۔لے کہ رہیں گے پاکستان۔۔۔۔بن کہ رہے گا پاکستان۔۔۔بٹ کہ رہے گا ہندوستان کے ۔کہیں یہ ترانے گونجتے ہیں شیر کے بیٹے شیر ہے تو شیر بن اور میدان میں آ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ بالآخر وہ وقت بھی آتا ہے جب مسلم لیگ کے جونتیسواں اجتماع قریب آتا ہے ۔لاہور کے منٹو پارک (اقبال پارک مینار پاکستان) میں اس کا اجتماع منعقد ہوتا ہے ۔سات روزہ کا یہ اجتماع جاری رہتا ہے۔پٹیالہ،امر تسر اور جونا گڑھ سمیت دیگر شہروں سے لوگ سفر کرکے اس اجتماع میں پہنچتے ہیں۔اسی اجتماع میں قرارداد پاکستان منظور ہوتی ہے۔اس قرار داد پر ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان معرض وجود میں آئے ۔گاندھی قائد اعظم کی منتیں اور سماجتیں کرنے لگا ۔قائد اعظم نے پانی منگوایا اور آدھا گلاس خود پیا اور آدھا گاندھی کو دے دیا اور اسے سے کہا یہ پانی پی جاؤ ۔گاندھی نے انکار کردیا کہ میں کسی مسلمان کو چھوڑا ہوا پانی نہیں پی سکتا ۔قائد اعظم نے گاندھی سے مخاطب ہوکر کہا اگر تم ہمارا جوٹھا نہیں پی سکتے تو ہم تمہارے ساتھ بھی نہیں رہ سکتے۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم ریڈیو پر آئے اور پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی ۔ہرطرف سے قافلے نکل پڑے ۔راستے میں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کردیے ۔داستانیں اتنی ہیں کہ کتابوں کی کتابیں بھی لکھی جائیں تو ختم نہ ہوں ۔ایک واقعہ گوش گزار کرتا ہوں ۔ ایک عورت ہیں پاکستان کے قیام کا سن کر اپنے تین بچوں کے ہمراہ نکل پڑتی ہے ۔راستے میں سکھ راستہ روک لیتے ہیں اور کہتے ہیں بی بی کہاں جاتی ہے کہتی ہےپاکستان جاتی ہوں ۔وہ ظالم کہنے لگے اچھا تو نے پاکستان جانا ہے جا لیکن ایک کام کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا ۔وہ عورت کہتی ہے بیٹے کٹوا دوں کی ،جان دے دوں گی لیکن پاکستان مردہ باد نہیں کہوں گی ۔اس عورت کے سامنے تینوں بچوں کو شہید کردیا جاتا ہے اور اسے ظالم کہتے ہیں جا اب تو پاکستان میں۔وہ عورت مہاجر کیمپ میں پہنچتی ہے وہاں سے قائد اعظم کا گزر ہوتا ہے کہتے ہیں اس عورت کو کیا ہوا ہے کبھی روتی ہے اور کبھی ہنستی ہے لوگ کہتے ہیں پاگل ہوگئی ہیں وہ عورت کہتی ہے پاگل نہیں ہوئی روتی اس لئے ہوں تین بیٹے کٹوائے ہیں ہنستی اس لئے ہوں کہ محمد ﷺ کے دیس میں پہنچ گئی ہوں۔یہی نہیں ہزاروں عزتیں لٹیں۔۔بچوں کو نیزوں پر چڑھایا گیا۔۔۔لاکھوں کا خون بہا ۔۔۔تب جا کر کہیں یہ ملک بنا ۔یہ ہجرت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تصور کی جاتی ہے۔
یہ چمن مسلم کے خاک و خون سے سینچا گیا خواب بن کر سینکڑوں آنکھوں میں دیکھا گیا
جب قائد اعظم سے پوچھا جاتا کہ پاکستان کامنشور کیا ہوگا وہ یہی کہتے پاکستان کا منشور چودہ سو سال پہلے جو تھا وہی آج ہے۔لیکن آج ہم اس منشور کو بھول گئے۔۔اس دستور کوبھول گئے۔ہم لاالہ الا اللہ کی پہچان بھول گئے ۔ہم اسلام کو بھول گئے۔ہم نظریہ اسلام کو بھول گئے کیونکہ نظریہ اسلام ہی پاکستان ہے ۔جب پاکستان بنا تھا تو گاندھی نے کہا تھا پاکستان کو مار دینی ہے تو ثقافت کی مار دینی ہے یہی وجہ آج وہ ہمیں ثقافت کی مار دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔انہوں نے ہماری کیبلز پر اپنے ڈرامے اور فلمیں چلائی جس کے نتیجہ میں ہمارے گھروں کے ماحول بدل گئے ہیں۔ہمارے گھروں میں قرآن کی بجائے موسیقی گونجتی ہے۔ہمارے لباس بھی ہندوانہ ،ہمارے ہئیر اسٹائل بھی ہندوانہ اور ہمارے ہیروز محمد بن قاسم ،ایوبی،موسی بن نصیر نہیں بھارتی اداکار ہیں۔
آج ہمارے نصابوں سے نظریہ پاکستان کو نکال دیا گیا ہے۔آج ہمارے نصابوں سے محمد بن قاسم کو نکال کر لارڈ میکالے کا دیا ہوا نظام تعلیم ڈال دیا گیا ۔علامہ اقبال کی منظوم کو نکال کر فراق گو رکھپوری کی نظموں کو ڈال دیا گیا ۔آج لا الہ الا اللہ کی بجائے یہ کہا جارہے کہ پاکستان کا مطلب پڑھنے لکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔آج اسلاف کی یادوں کو تازہ کرنے کا وقت ہے۔نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنا جماعتوں و تنظیموں کا کام نہیں بلکہ ہر محب وطن پاکستان کا کام ہے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا