واشنگٹن (جیوڈیسک) فیس بک کی انتظامیہ نے کہاہے کہ اگر ہمیں اپنے صفحات پر کسی جانب سے شکایت ملتی ہے تو ہماری گلوبل کمیونٹی کی ٹیم اس کا فوری جائزہ لیتی ہے اور اگر یہ مواد ہمارے ضابطوں کے خلاف ہو تو ہم اسے فیس بک سے ہٹا دیتے ہیں یا مخصوص علاقوں میں اس کی رسائی روک دیتے ہیں۔
وی او اے نے پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کے بعد کہ فیس بک نے پاکستانی حکومت کی شکایت پر توہین مذہب سے متعلق زیادہ تر مواد اپنے صفحات سے ہٹا دیا ہے اور ان کی ایک ٹیم تحقیقات میں مدد کے لیے پاکستان آ رہی ہے، فیس بک کو ایک ای میل کی، جس کے جواب میں فیس بک کی نمائندہ نے لکھا ہے کہ ہماری پالیسیاں ہماری عالمی کمیونٹی کے معیاروں پر مبنی ہیں جو یہ وضاحت کرتے ہیں کہ لو گ فیس بک پر کیا شیئر کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسا مواد دیکھتا ہے جس کے متعلق اس کاخیال ہے کہ وہ ہماری پالیسیوں سے انحراف ہے تو وہ ہمیں اس کی شکایت کر سکتا ہے۔ جب ہمیں کسی چیز کے متعلق رپورٹ ملتی ہے، تو ہماری ایک گلوبل ٹیم ان شکایات کا فوری جائزہ لیتی ہے اور اگر وہ ہمارے معیاروں کے خلاف ہوتے ہیں تو ہم اس مواد کو فیس بک کے تمام حصوں سے ہٹا دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے فیس بک سے پوچھا تھا کہ ہم ان خبروں کی تصدیق کرنا چاہیں گے کہ آیا فیس بک سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی تحقیقات میں پاکستانی حکام کی مدد کے لیے اپنی ٹیم پاکستان بھیج رہا ہے؟ فیس بک کی ٹیم کب پاکستان پہنچ رہی ہے یا پہنچ چکی ہے۔ اس ٹیم کے کتنے ارکان ہیں۔ فیس بک کی ٹیم کی قیادت کون کررہاہے؟ کیا وہ واقعی اس طرح کی کسی تفتیش میں پاکستانی حکام کی مدد کررہے ہیں؟ وہ پاکستانی حکام کو کس قسم کی مدد دے چکے ہیں یا مدد دینے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
فیس بک کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ہم کسی حکومت کے ساتھ مخصوص بات چیت یا ملاقاتوں پر تبصرہ نہیں کریں گے لیکن عموماً ہم سرکاری عہدے داروں کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنے دروازے کھلےرکھتے ہیں۔
ان کی ای میل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے کہ پاکستانی وزیر نے کیا کہا ہے اور نہ ہی ہم حکومت کے مخصوص ردعمل کی بات کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اس حوالے سے آپ کو اس کے پس منظر سے متعلق معلومات فراہم کررہے ہیں جو ممکنہ طور پر آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔
فیس بک نے قابل اعتراض مواد پر اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی مواد کسی مخصوص ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہو، لیکن وہ فیس بک کے کمیونٹی معیاروں سے متصادم نہ ہو ۔ اگر ہمیں حکومت سے اس طرح کی درخواست موصول ہوتی ہے تو ہم بہت احتیاط سے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور ہم متعلقہ ملک میں اس مواد تک رسائی روک دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہالوکاسٹ سے انکار جرمنی میں غیرقانونی ہے۔ اگر ہمیں اس کے بارے میں شکایت ملتی ہے تو ہم جرمنی کے لوگوں کے لیے اس مواد کی رسائی روک دیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی مواد توہین مذہب کے مخصوص قوانین کے تحت صرف پاکستان میں غیر قانونی ہے تو ہم اس معاملے سے اسی انداز میں نمٹیں گے۔
فیس بک نے وائس آف امریکہ کے نام اپنے جواب میں کہا ہے کہ اگر آپ کسی چیز کا براہ راست حوالہ دینا چاہتے ہیں تو آپ ہماری حکومتوں کی درخواستوں سے متعلق رپورٹ کو پیش نظر رکھ سکتے ہیں جس کے مطابق جب حکومتیں یہ سمجھیں کہ انٹرنیٹ پر موجود کسی چیز سے ان کے قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کر کے ہمیں اس مواد تک رسائی روکنے کے لیے کہہ سکتی ہیں۔ جب ہمیں اس طرح کی کوئی درخواست ملتی ہے تو ہم یہ تعین کرنے کے لیے اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ آیا اس مخصوص مواد سے وہاں کے مقامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اگر ہم یہ تعین کرلیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہے تو پھر ہم متعلقہ ملک یا علاقے میں اس کی رسائی روک دیتے ہیں۔