ترکی (جیوڈیسک) یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ داعش کے دهشت گردوں کے خلاف لڑائی میں ترکی کی جانب سے پہلے سے زیادہ مدد حاصل کر سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا دورہ ترکی اور صدر رجب طیب اردوان سے ان کی ملاقات امریکہ کے لیے دهشت گرد گروپ داعش کے خلاف لڑائی میں ایک اہم شراکت دار کے ساتھ تعلقات کے فرو غ کا ایک موقع ہے۔ یہ ایسے میں محتاط سفارت کاری کا بھی متقاضی ہے جب اردوان کو اقتدار مستحکم کرنے کے اپنے اقداما ت کی بنا پر نیٹو کے اپنے شراکت داروں سے بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔
ان اقدامات میں ایک ناکام انقلاب کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی گرفتاریاں اور اپنے اختیارات میں توسیع کے لئے ایک ریفرینڈم شامل ہے ۔
امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کی جانب سے ایک اہم لیکن متنازع شراکت دار ملک کے اپنے پہلے دورے میں امریکہ کے نیٹو کے شراکت داروں کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کی گفتگو کی بنیاد تین دیر پا اہداف تھے ۔داعش کو شکست دینے کے لئے مل کر کام کرنا، خطے میں استحكام قائم کرنا اور ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات بڑھانا۔ ترکی 1952 سےنیٹو کا ایک اتحادی رہا ہے اور ہم اس اتحاد میں اور داعش کو شکست دینے کے عالمی اتحاد میں فوجی تعاون جاری رکھیں گے۔
لیکن انہیں بہت احتياط سے کام لینا تھا، خاص طور پر شام میں داعش سے رقہ کا کنٹرول واپس لینے کے لئے ان شامی کرد جنگجوؤں کی اہم مدد کے ساتھ آئندہ ہونے والی ایک لڑائی سے قبل، جنہیں ترکی دهشت گرد خیال کرتا ہے ۔ یہ شراکت داری امریکہ او ر ترکی کے تعلقات کے لیے ایک تکلیف دہ مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے ٹلرسن نے کام کیا۔
ان کا کنہا تھا کہ ہم ترکی کی جانب سے اپنے ملک ا ور اپنے لوگوں کے خلاف ہونے والی دهشت گردی کی لڑائی میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ گذشتہ سال ترکی میں پی کے کے کے حملے ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ترک لوگوں کے لیے حملے کا خطرہ کتنا قریب ہے ۔ ہم ان سب کے لیے جو پی کے کے کی دهشت گردی کے باعث اپنے عزیزوں کو کھو چکے ہیں، تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور ہم شام میں داعش کے خلاف جرات مندانہ لڑائی میں 70سے زیادہ جانوں کے نقصان پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔
یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ داعش کے دهشت گردوں کے خلاف لڑائی میں ترکی کی جانب سے پہلے سے زیادہ مدد حاصل کر سکتا ہے۔
مسٹر ٹلرسن نے ایک ایسے وقت میں ترک حزب اختلاف سے ملاقات نہیں کی جب نیٹو کے اتحادی اردوان پر ان کے خلاف پکڑ دھکڑ پر تنقید کر رہے ہیں جن پر گذشتہ سال انقلاب کی ایک کوشش کی پشت پناہی کا إلزام عائد ہے۔
جیکسن سو سائٹی کے ایلکس مینڈوزا کا کہنا ہے۔ یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی اس اعتبار سے اسے زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں جب مسٹر ٹرمپ آمریت پسندوں کے بارے میں بظاہر کچھ زیادہ فکر مند دکھائی نہیں دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ، مثال کے طور پر وہ مصر کے صدر کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ یورپینز نے مسٹر اردوان کو ایک فاصلے پر رکھا ہوا ہے۔ اور اس سے آپ کو اس بارے میں ایک اشارہ ملتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس مرحلے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان ترجيحات مختلف ہیں۔
ابھی چند ہفتے بعد ترکی میں صدر اردوان کے اختیارات میں توسیع پر ایک ریفرینڈم کا انعقاد ہونے کو ہے۔
یورپی راہنماؤں کو توقع ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں ترک وابستگیوں میں اضافے پر ہونے والی گفت و شنید میں امریکہ انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں سے صرف نظر نہیں کرے گا۔