تحریر : ایم اے تبسم کرپشن یعنی بد عنوانی اور رشوت ستانی پر اِس وقت پورے ملک میں گفتگو جاری ہے۔ ماضی میں بھی ہورہی تھی اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ گزشتہ مہینوں کے دوران اس کا خصوصیت سے ذکر رہا۔پاناما لیکس سے اس کے تذکرے میں مزید شدت آئی جب وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی فیملی کے کئی افرادکے نام پاناما لیکس میں لئے گئے،جس پر کچھ ماہ تک عدالت عالیہ میں کیس بھی چلا اور محترم جج صاحبان نے فیصلہ محفوظ بھی کرلیا ا ب دیکھیں معززجج صاحبان کب پاناما لیکس کا فیصلہ سناتے ہیں۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ کئی بڑے لوگ سلاخوں کے پیچھے گئے اور کئی اونچے افراد سے مسلسل تفتیش جاری ہے۔
کئی سابق وزراء ضمانت پر رہا بھی کردئیے گئے ہیں،اللہ کرے پاناما لیکس کا فیصلہ پاکستان اور عوام کے لئے خوشحالی کی نویدبن کر آئے،اگر فیصلہ ملک سے کرپشن کے ہمیشہ کے لئے خاتمے کا آیا تو ملک میں ایک ہیجان پیدا ہوگا، جو حکمرانوں، سیاست دانوں اور معروف بدعنوانوں کے حق میں نہیں جائے گا، اس لیے ہمارے یہاں کی پرانی روایت کے مطابق ایک کلائمکس پیدا ہونے کے بعدکچھ کو کوئی خوبصورت فریب دے کراورکچھ کو جوس کا گلاس پلا کر کرپشن کوموت کا شکار ہونے سے بچا لیا جائے گا اور بدعنوانی کا سیلاب جوں کا توںمحلے سے لے کر پارلیمنٹ تک جاری رہے گا۔ایسا کیوں نہ ہو؟ محلے کا ایک غریب اور مفلوک الحال شخص جب یونین کونسل کا الیکشن جیت کر کونسلریاچیئرمین بنتے ہی راتوں رات ترقیاتی فنڈ کے لاکھوں روپے اپنی صواب دید پر خرچ کرنے کا مکلف ہوجاتا ہے اور کوئی عقیدہ و تصور اور عملاً قانون اْس کی راہ میں حائل نہیں ہوپاتا ہے توآسمان سے اچانک ٹپکے ہوئے اس خزانے کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی شخصیت اور اپنے عزیز و اقارب پر صرف کرنے سے کیوں گریز کرے۔
اِسی طرح جب ایک صوبائی یا مرکزی وزیر کی جنبشِ قلم پر کروڑوں نہیں اربوں روپے رقص کرتے ہوں تو وہ ان میں سے اپنا معقول حصہ نکال کرا پنی کئی پشتوں کا نظم کیوں نہ کرلے؟ اس کو معلوم ہے کہ انتہائی فن کاری سے انجام دیے گئے اس کام کی اولاً تو کسی کو کانوں کان بھنک نہیں لگے گی اور کچھ ہوا بھی تو چند اخباری خبروں اور سرسری تحقیقات کے بعد معاملہ خود ہی سرد خانے میں چلا جائے گا۔ اتنے بڑے ملک میں بہت تیزی سے مسلسل سامنے آنے والے بدعنوانی کے بے شمار واقعات میں اْس کا واقعہ کس کو یاد رہے گا! وقتی طور پر کابینہ سے علیحدگی ہو بھی گئی تو اگلی کابینہ میں وزیر بننے سے اس کو کون روک سکے گا؟ اور فرض کیجیے قسمت نے تھوڑی دیر ساتھ نہ دیا اور چند مہینے جیل میں بھی گزر گئے تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ رہائی کے بعد اس کو ہار پھول پہنا کر سر پر بٹھانے والے حواریوںکی کب کمی ہوتی ہے؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنی حکمت و دانائی سے جو کئی ہزار کروڑ روپے اس نے جمع کرلیے ہیں انھیں حکومت یا عدالت اْس سے واپس تھوڑے ہی لے پائے گی۔
یونین کونسل سے پارلیمنٹ تک کا ذکر تو بس نمونے کے طور پر کیا گیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تن ہمہ داغ داغ شد — کی کیفیت ہے اور کوئی شعبہ زندگی ایسا ملنا نا ممکن سا ہے جہاں بدعنوانی، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ نہ ہو۔ یونین کونسل سے لے کر مرکزی وزیر تک، چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ ترین افسر تک ، آٹو رکشا والے سے لے کر ہوائی جہاز کے پائلٹوں تک، بس کنڈکٹر سے لے کرریلوے کے ٹی ٹی تک، دودھ گھی تیار کرنے اور فروخت کرنے والوں سے لے کر دوا سازوں اور دو ا فروشوں تک،ہوائی اڈوں پر متعین کسٹم ملازمین تک، کرپشن اور بدعنوانی سے کون کتنا پاک ہے یہ کہنا مشکل ہے ! یہ نہ سمجھا جائے کہ اس فہرست میں جن بے شمار کاموں پیشوں اور شعبوں کے نام درج نہیں کیے گئے ہیں وہ سب بڑے پاکباز اورا نتہائی دیانت دار ہیں۔
کرپشن کے پہلو سے ملک کی جو تشویش ناک صورت حال ہے، اْس پر عمران خان جیسے حضرات حکومت اور اہل وطن کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں، یہ اپنے آپ میں بہت غنیمت ہے، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا یہ مرض اتنا مہلک اور معاشرے کے رگ و پے میں ایسا سرایت کیے ہوئے ہے کہ کسی بھی عام علاج سے اس کا خاتمہ آسان نہیں ہے۔ بات بہت سادہ سی ہے کہ جب کسی بڑی محنت و جدوجہد کے لاکھوں کروڑوں روپے اور بے حدوحساب جائیداد ہاتھ آرہی ہو تو کوئی بھی شخص اس سے منہ کیوں موڑے؟ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کی زندگیاں ہمارے سامنے ہوں تو امیدکی جاسکتی ہے کہ ہماری روحوں تک میں بسیرا کیے ہوئے اندھیرے کافور ہوسکتے ہیں اور ہم بدعنوانی و کرپشن کے اس تاریک غار سے سچائی و دیانت کے نور سے روشن شاہراہ پرآسکتے ہیں۔
مدینہ کی گلیاں تھیں، رات کی تاریکی تھی، ہر طرف سنّاٹا تھا، صبح ہونے کے قریب تھی۔ گھر کے اندر سے کسی ماں کی آوازآرہی تھی: بیٹی اٹھ جا، اْٹھ جا، صبح ہورہی ہے، اٹھ جا دودھ میں پانی ملا دے! بیٹی نے کہا: امی یہ گنا ہ ہے! امیر المومنین نے اعلان کرایا ہے کہ دودھ میں کوئی ملاوٹ نہیں کی جائے گی! ماں نے قدرے بلند آواز سے کہا: یہاں کہاں ہیں امیر المومنین! اْٹھ جا دودھ میں پانی ملا دے! بیٹی نے ادب سے عرض کیا :ماں! امیرالمومنین نہ سہی، اللہ تو موجود ہے! امیر المومنین نہ دیکھیں، وہ تو دیکھ رہا ہے! اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا اس گفتگو کے بعد بھی ماں نے دودھ میں پانی ملانے پر اصرار کیا ہوگااور رات کے سناٹے میں بھی خدا کے اپنے گھرمیں موجود ہونے کا یقین رکھنے والی بیٹی نے دودھ میں پانی ملا دیا ہوگا؟ نہیں، ہرگز نہیں! تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ اس کے ساتھ یہ دلچسپ واقعہ ہواکہ اپنے عوام کی خبرگیری کے جذبے سے راتوں کو مدینے کی گلیوں کا گشت لگانے والے امیر المومنین حضرت عمر خود ہی گلی میں کھڑے ہوئے ماں بیٹی کی یہ گفتگو سن رہے تھے۔ آپ معصوم لڑکی کے جذبہ ایمان اور حسن کردار سے ایسے متاثر ہوئے کہ صبح ہونے پر اس لڑکی کو اپنی بہو بنا لیا۔
یہی امیر المومنین عمر مدینہ کی مسجد نبوی ۖمیں مسلمانوں کو خطاب فرمارہے تھے۔ مجمع سے ایک صاحب اٹھے اور کہا کہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے، جب تک آپ یہ نہ بتائیں کہ آپ نے یہ لمبا کرتا کیسے سِلا لیا؟ یعنی بیت المال سے تو ہر مسلمان کو صرف ایک ایک چادر تقسیم ہوئی تھی( ایک ہی چادرآپ کو بھی ملی تھی ، اور ایک چادر میںآپ جیسے دراز قد شخص کا قمیص تیار ہونا ممکن نہیں ہے)حضرت عمر جن کے نام سے قیصر وکسریٰ کی حکومتیں کانپتی تھیں، فرمایا کہ اس اعتراض کا جواب میرے بیٹے عبد اللہ دیں گے۔ بیٹے نے کھڑے ہوکر وضاحت کی کہ بیت المال سے جو چادر میرے حصے میںآئی تھی وہ میں نے والد محترم کو پیش کردی تھی( اس طرح دوچادریں ملا کر امیر المومنین کا کرتا تیارہوا ہے) اعتراض کرنے والے شخص نے مطمئن ہوکر کہا کہ ٹھیک ہے، اب آپ کا خطاب سنیں گے۔
اِنھیں حضرت عمر کی اگلی نسلوں کے ایک عزیز عمر بن عبد العزیز بھی خلیفہ ہوئے تو دل کی دنیا اور زندگی کی کیفیت تبدیل ہوگئی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز سرکاری کام میں مشغو ل تھے کہ بیت المال کی امانت کے طور پر رکھے ہوئے سیب کے ڈھیر میں سے اْن کے چھوٹے سے معصوم بیٹے نے ایک سیب اٹھالیا۔خلیفہ نے بیٹے کے ہاتھ سے سیب لے کر امانت میں ڈال دیا تو بچہ روتے ہوئے گھر چلا گیا۔ کام ختم کرکے جب وہ خود گھر پہنچے تو بیوی نے شکایت کی کہ آپ نے بیٹے کے ہاتھ سے سیب چھین لیا اور وہ خالی ہاتھ روتے ہوئے واپس آگیا۔ خلیفہ وقت نے کہا کہ وہ سب بیت المال کی امانت تھی( اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں) بیٹے کو سیب چاہئے تو میں اپنے پیسے سے بازار سے لا دیتا ہوں! یہ چھوٹے چھوٹے تین تاریخی واقعات اِس بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اگر اللہ کے ہونے پر کامل ایمان ہو،آخرت کا یقین اور وہاں ہر چھوٹے بڑے نیک و بدعمل کی جواب دہی اور جزا و سزا کا احساس تازہ رہے اور دنیوی اعتبار سے بھی رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مبارک پیش نظر رہے کہ اگر محمدۖ کی بیٹی بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا تو ملک میں موجود کرپشن کی موجودہ صورت باقی نہ رہتی۔ جہاں نہ اللہ کا خوف ہو، نہ آخرت میں جواب دہی کا احساس، نہ دنیا میں بھی جرم کی سخت سزا کا اندیشہ اور کیفیت یہ ہو کہ ؟ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست وہاں کرپشن کا دریا بہنے اور بہانے سے کیسے اور کس طرح روکا جاسکتاہے؟ اس کو مستحکم عقیدے اور موثر قانون اور اس کے بے لاگ نفاذ سے ہی ختم کیاجاسکتا ہے۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟ نوٹ:راقم کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی) کے مرکزی صدر اور پاورپوائنٹ نیوزنیٹ ورک سمیت متعددویب سائٹس کے ایڈیٹرانچیف کے طورپر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
M A TABASSUM
تحریر : ایم اے تبسم مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی) Email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102