پیراگوئے (جیوڈیسک) ملک میں 1999ء میں آمریت کے دور کے خاتمے کے بعد مرتب ہونے والے آئین کے تحت صدر صرف ایک بار ہی پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہو سکتا ہے۔
حزب مخالف کی پراگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر ڈیزاری مسی نے کہا کہ “ایک بغاوت ہوئی ہے۔ ہم اس کی مزاحمت کریں گے اور ہم لوگوں سے بھی کہیں گے کہ وہ اس کی مزاحمت کریں۔”
ٹی وی پر نشر ہونے والے مناظر میں پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے بعد مظاہرین پارلیمان کی عمارت پر دھاوا بولتے ہوئے اور اس کی کھڑکیوں کو توڑتے ہوئے نظر آئے۔
مظاہرین نے کانگرس کی عمارت کے باہر ٹائر جلائے اور اس کے گرد نصب باڑ کو توڑتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہو گئے جس پر وہاں موجود پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے ربر کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے گولے فائر کیے۔
مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مظاہرے میں شریک کئی سیاسی راہنما اور وہاں موجود صحافی زخمی ہوئے جبکہ ملک کے وزارت داخلہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
قبل ازیں جمعہ کو سینیٹ نے مجوزہ آئینی ترمیمی بل کو منظور کر لیا اور 45 ارکان پر مشتمل ایوان کے 25 ارکان نے اس بل کے حق میں ووٹ دیئے۔
اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے پیراگوئے کے جمہوری ادارے کمزور ہوں گے۔
اب اس بل کو منظوری کے لئے کانگرس کے ایوان زیریں بھیجا جائے گا جہاں ملک کے موجودہ صدر ہوراشیو کارٹیز کے حامی ارکان اکثریت میں ہیں۔
لاطینی امریکہ کے کئی ممالک بشمول پیراگوائے، پیرو، چلی میں مسلسل دوبار صدر منتخب ہونے کی آئینی طور اجازت نہیں ہے۔
دیگر ملکوں میں کولمبیا اور وینزویلا شامل ہیں جو اپنے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے صدر کو دوسری بار انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے چکے ہیں۔
اگر پیراگوائے کی کانگرس اس مجوزہ آئینی ترمیم کی منظور دی دیتی ہے تو اس کا اطلاق موجودہ صدر کارٹیز پر بھی ہو گا جو 2013ء میں پانچ سال کی مدت کے لئے ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
تاہم اس بل کی مخالفت کرنے والوں کا موقف ہے کہ کسی بھی موجودہ صدر کو دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دینا کسی طور مناسب نہیں ہے۔