تحریر : شیخ توصیف حسین آج وطن عزیز میں لاتعداد سیاست دان سوتے ہوئے ڈرائونا خواب دیکھ کر تو ڈر جاتے ہیں لیکن جاگتے ہوئے نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو کر خداوند کریم کے عذاب سے نہیں ڈرتے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک سرکاری ڈرائیور نے رات کو اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک ترپال چوری کر لی جسے وہ سرکاری گاڑی پر لاد کر اپنے کوارٹر کی جانب لے جا رہا تھا کہ اسی دوران اس کے ایک سینئر آفیسر نے اُسے دیکھ لیا دوسرے دن اُس آفیسر نے پریڈ کے دوران بڑ بڑاتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ رات کے وقت یہاں پر چوریاں ہوتی ہیں کوئی ترپال چراتا ہے اور کوئی کچھ اور یہ سن کر ایک اہلکار نے اُس آفیسر سے پو چھا کہ یہ ترپال چور کو ن ہے تو آ فیسر نے بڑی گرجدار آ واز میں کہا کہ وہ گامو ڈرائیور ہے جسے میں نے از خود اپنی آ نکھوں سے ترپال چوری کرتے ہوئے دیکھا ہے میں اس کی اس گھنائو نی حرکت کو ارباب و بااختیار کی نظر ضرور بر ضرور کروں گا میں اسے کسی بھی حالت میں چھوڑوں گا نہیں میں اسے دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بنا دوں گا یہ ملک و قوم کی دولت لوٹنے میں مصروف عمل ہے یہ وہ ناسور ہے جو ملک و قوم کی عظمت پامال کرنے میں مصروف عمل ہے جس کا محاسبہ وقت کی عین ضرورت ہے۔
لہذا اس کے محاسبے کیلئے اعلی افسران سے لیکر عدالت تک بھی مجھے جانا پڑا تو ضرور جائوں گا چونکہ اس کے اس گھنائو نے اقدام کی وجہ سے ہمارے ادارے کی عزت پامال ہو رہی ہے اُس آ فیسر کی ان باتوں کو سننے کے بعد وہ اہلکار گامو ڈرائیور کے پاس پہنچ کر اُس سے پو چھنے لگا کہ کیا تم نے ترپال چوری کی ہے جس پر گامو ڈرائیور نے اپنے پیٹی بند بھائی سے کہا کہ ہاں میں نے رات کے وقت ترپال چوری کی ہے گامو ڈرائیور کی اس بات کو سننے کے بعد اُس کے پیٹی بند بھائی نے گامو ڈرائیور کو ایک راز کی بات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ آ فیسر تو تم سے بھی بڑا چور ہے اس نے سر کاری قیمتی درخت چوری کٹوا کر اپنی بیٹی کیلئے جہیز بنوایا ہے جو اس وقت اس کے گھر میں موجود ہے لہذا جب یہ آ فیسر تمھاری چوری کی شکایت اعلی افسران کو کرنے کیلئے نکلے گا تو تم نے بھی اسے یہ کہنا ہے کہ میں بھی تمھاری شکایت اعلی افسران کے سامنے کروں گا جو تم نے سرکاری قیمتی درخت کٹوا کر اپنی بیٹی کا جہیز بنوایا ہے جو اس وقت تمھارے گھر میں موجود ہے قصہ مختصر کہ جب مذکورہ آفیسر گامو ڈرائیور کی شکایت اعلی افسران کو کرنے کیلئے نکلا تو گامو ڈرائیور نے بھی اُسے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چلو چلو اعلی افسران کے پاس میں بھی تمھاری شکایت اعلی افسران سے کروں گاجو تم نے سرکاری قیمتی درخت چوری کٹوا کر اپنی بیٹی کا جہیز بنوایا ہے جو اس وقت تمھارے گھر میں موجود ہے۔
یہ سن کر اُس آفیسر کے ہوش اُڑ گئے اور اُس نے گامو ڈرائیور سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ نہ میں تمھاری شکایت اعلی افسران سے کرتا ہوں اور نہ تم میری شکایت کرو بس یہی کیفیت ہمارے وطن عزیز کے لاتعداد سیاست دانوں کی ہے جو ملک و قوم کی دولت لوٹ کر ایک دوسرے کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ بلکہ ایک دوسرے کی رہائی پر مبارک باد بھی دیتے ہیں یہی کافی نہیں ان مفاد پر ست سیاست دانوں کی سر پر ستی میں آج وطن عزیز کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی کرپٹ ترین افسران و دیگر اہلکاروں کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے جہاں پر سے کسی غریب مظلوم شخص کو انصاف ملنا بس ایک دیوانے کا خواب ہے جس کی ایک چھوٹی سی مثال میں اپنے قارئین اور بالخصوص وطن عزیز کے حاکمین میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو دے رہا ہوں۔
ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران محمد امین نامی نوجوان جس کی آ نکھوں میں سمندر کی لہروں کی طرح آ نسو تھے ہونٹ خشک پتوں کی طرح بال بکھڑے ہوئے بادلوں کی طرح قصہ مختصر کہ اس کے چہرے پر بے بسی اور لا چارگی کے آ ثار نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگا کہ کیا اس ملک میں غریب ہو نا جرم ہے اگر جرم نہیں تو پھر ہم جیسے غریبوں کو یہ مفاد پر ست سیاست دان اور اُن کے منظور نظر افسران و دیگر اہلکار سزا کیوں دے رہے ہیں اُس کی ان درد بھری باتوں کو سننے کے بعد میں نے اُس نوجوان جو مکمل طور پر بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا سے پو چھا کہ آپ کو کس مفاد پرست سیاست دان اور اُس کے منظور نظر اہلکار نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ہے یہ سنتے ہی وہ زاروقطار روتے ہوئے کہنے لگا کہ میں 24-1-2011کو بطور میٹ بلدیہ جھنگ کو ایک درخواست گزاری لیکن رشوت نہ دینے کے پاداش میں مجھے خاکروب بھرتی کر کے جھنگ سٹی میں واقع ایک گندے پانی کی ڈسپوزل پر تعنیات کر دیا۔
حالانکہ میں نے سینٹری انسپکٹر کا کورس نمایاں طور پر کیا ہوا تھا لیکن غربت اور بالخصوص اپنے بوڑھے والدین بیوہ بہن اور اُس کے چار بچوں کی کفالت کیلئے یہ خاکروبی کا عہدہ بڑی ایمانداری اور فرض شناسی سے نبھایا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ میں نے اپنی سات سالہ تعنیاتی کے دوران ایک دن بھی اپنی نوکری سے غافل نہ ہوا جس کے نتیجہ میں مجھے سات سال تک پوری کی پوری تنخواہ ملتی رہیجبکہ اس دوران میں نے متعدد بار بلدیہ جھنگ کے ارباب و بااختیار کو تحریری طور پر باور کرانے کی کوشش کی کہ میں اچھے خاندان کا ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور سینٹری انسپکٹر کا کورس نمایاں طور پر کیا ہوا ہے لہذا مجھے سینٹری انسپکٹر تعنیات کیا جائے لیکن افسوس صد افسوس کہ یہاں بھی میری غربت آ ڑے آ گئی حالانکہ اس دوران مالدار نااہل افراد جن کے پاس سینٹری انسپکٹر کا کوئی ڈپلومہ بھی نہ تھا انھیں بھاری رشوت لیکر سینٹری انسپکٹر تعنیات کر کے نہ صرف قانون بلکہ عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑا دی۔
ان ارباب و بااختیار کے ظالمانہ رویے کو دیکھ کر میں نے متعدد بار خود کشی کرنے کی کو شش کی لیکن گھر کا واحد کفیل ہو نے کے سبب خود کشی کر نے میں ناکام رہا بے رحم وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ اسی دوران بے رحم وقت نے کروٹ بدلی اور میرے قائد میاں نوا ز شریف اور میاں شہباز شریف جن کی بنیادی رکنیت کا اعزاز آج بھی میرے پاس ہے نے بلدیاتی نظام کے رائج ہونے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجہ میں ضلع جھنگ کے ایم این اے شیخ محمد اکرم کے بیٹے شیخ نواز اکرم چیرمین بلدیہ جھنگ منتخب ہو گئے جن کی کامیابی پر ہم مسلم لیگی غریب نوجوانوں نے مٹھائی تقسیم کی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چیرمین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کی کامیابی کی خوشی میں میں رات بھر سو نہیں سکا چونکہ مجھے یہ یقین تھا کہ اب مجھے نہ صرف مسلم لیگی ہونے بلکہ میرٹ کے لحاظ سے بھی مجھے بلدیہ جھنگ میں سینٹری انسپکٹر تعنیات کر دیا جائے گا لیکن افسوس صد افسوس کہ یہاں بھی میری غربت آ ڑے آ گئی چونکہ میں نے چیرمین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کے قریبی عزیز شیخ امتیاز جو کہ بلدیہ جھنگ میں غیر قانونی طور پر ہیڈ کلرک کی سیٹ پر بر جمان ہے نے یہ کہہ کر چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کر دیا کہ اگر تم نے ایک دن کے اندر میری مطلوبہ رقم کا بندوبست نہ کیا تو میں تمھیں ڈسپوزل جہاں تم رات کے اندھیرے میں اپنی ڈیوٹی دیتے ہو سے نکال کر دن کے اُجالے میں سڑکوں کی صفائی پر تعنیات کر دوں گا جسے دیکھ کر تمھارے رشتے دار تمھاری عزت کا جنازہ نکال دے گے۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔