تحریر : حفیظ خٹک سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی طرز زندگی کا آغاز نوجوانی میں ہی ہوچکا تھا ۔ 1957 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی جانب سے کم عمر رکن بنے اس کے بعد وہ حکومت پاکستان کی کابینہ کا حصہ بن کر وزیر پیڑولیم بنے تاہم یہ بات عیاں ہے کہ ا ±ن کی پذیرائی میں اضافہ تب ہوا جب انہوں نے وزیرخارجہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی۔ بے شک ! بانی پاکستان وبابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے بعد اگر کسی رہنما کا نام ا ±جاگر ہوا، جس نے عوام کے دلوں میں اپنا نام بنایا ہو یا جسے عوام نے اپنا قائد تسلیم کیا ہو وہ اک مدت اور کسی حد تک تاحال صرف قائدعوام۔۔۔شہید ذولفقار علی بھٹو کا نام ہی جا نا جا تا ہے، جسے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے قومی لیڈر مانے جاتے ہیں۔بہت سوں کا تجزیاتی دعوی ہے کہ قائد عوام۔۔۔قائد اعظم کے عظیم پیروکاروں کی فہرست میں شامل تھے کیونکہ بھٹو صاحب کا قائد اعظم کو لکھا خط یہ واضح کرتا ہے کہ بھٹو صاحب تحریک پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے مگر قائداعظم نے تلقین کی کہ آپ کی عمر ابھی تعلیم حاصل کرنے کی ہے لہٰذا تعلیم حاصل کریں تاکہ مستقبل میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اپنا اہم کردار ادا کرسکیں۔ اس بات کا ذکر کرنا اس لیے اہم ہے کہ کوئی بھی قوم ایک اچھی قیادت سے ہی تعمیر و ترقی کی طرف سفر کرتی ہیں جو کسی قوم کا معاشی استحکام بہتر کرکے قوم کی منزل کے سفر تعین کرکے اپنی مثالی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے ملک وقوم کی تاریخ میں اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہے۔
بھٹو صاحب پاکستان کے سماجی وآزادخیال شخصیت کے مالک تھے ، جس کی وجہ سے ا ±ن کا نظریاتی عمل یہ تھا کہ پاکستان کی ترقی واستحکام صرف جمہوریت سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 30نومبر 1967لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لاکر انہوں نے خود کو عوام کی کچہری میں آنا اولین ترجیح سمجھا اور یہ نعرہ بلند کیا ” طاقت کا سرچشمہ۔۔۔عوام ہے“۔
بھٹو صاحب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی قائددانہ صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے ۔ 15دسمبر 1971اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے شرکاءمیں (دنیا بھرکے ممالک) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام دستاویز پھاڑتے ہوئے کہا کہ میرے ملک کو میری ضرورت ہے اور مجھے اپنا وقت سلامتی کونسل میں ضائع نہیں کرنا چایئے۔اس طرح کی مثال دنیا کی کسی لیڈر میں نہیں ملتی۔ اک بار امریکی صدر جون ایف کینیڈی نے بھٹو صاحب کی امریکی دورے پر ملاقات کے دوران کہا کہ آپ امریکہ کے وائٹ ہاﺅس میں کھڑے ہے تو بھٹو صاحب نے دلچسپ انداز میں جواب دیا کہ بدقسمتی سے آپ کے وائٹ ہاﺅس کا فرش میرے پیروں کے نیچے ہے، اس بات کو لیکر امریکی صدر نے انہتائی سنجیدہ انداز میں کہا کہ آپ کی ذہانت نے مجھے متاثر کیا اگر آپ امریکہ میں ہوتے تو یقیناًہماری کابینہ میں شریک ہوتے تو بھٹو صاحب نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر میں امریکہ میں ہوتا تو میںآپ کی جگہ (امریکی صدر) ہوتا، جس پر امریکی صدر کینیڈی حیرت انگیز سوچ میں مبتلا ہوگئے۔
بھٹو صاحب نے پاکستان کے لیے جو کارنامے سرانجام دیئے وہ کسی سے چھپے نہیں ، 1973 کا آئین (جو ریاست کے نظام کو قانونی حیثیت دیتا ہے ) ، عام شہری کو شناختی کارڈ دیکر ا ±ن کی قومی پہچان دینا، پاسپورٹ دیکر پاکستانیوں کو بیرونی ممالک تجارت و روزگار حاصل کرنے مواقع ، کسان ومزدور کو ملکیت دی تاکہ وہ بہ اختیار بن سکیں۔ ملک کی سالمیت کے لیے نیو کلیئر ایٹم اک بورڈ کا قیام ، ریاست کے سرکاری اداروں کا قیام ، بھارت معاہدہ سے 90 ہزار فوجییوں کی بازیابی ، ا ±ن کا نعرہ ہمیشہ ایک ہی رہا کہ عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان دینا ہماری حکومت کی اہم ترجیح ہوگی۔
گذشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں معروف صحافی جنا ب افتخار احمد نے بھٹو صاحب کے نظریاتی پہلوﺅ ں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھٹو صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ، ا ±ن کی پہلی خوبی یہ تھی کہ جب وہ کسی شخص سے پہلی ملاقات کرلیں تو دوسری ملاقات میں ا ±ن کے نام سے پکارتے تھے، دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر عام آدمی سے مشاورت لینا ، بھٹو صاحب پر جب ملتا ن میں حملہ ہوتا ہے تو وہاں کہ طالب علموں نے حملہ آوروں پر پتھارو شروع کردیا۔بھٹو عوام کی سوچ میں اس طرح بس گیا تھا کہ سیلاب میں متاثرین کے ساتھ ساتھ تپتی گرمی میں پیدل چل کر ا ±ن کے دکھ میں شریک ہوکر ا ±نہیں سینے لگاکر انہیں حوصلہ دینا ان کا اقدا رہا ہے ، پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز کی مثال اہم مانی جاتی ہیں۔۔۔1977سے لیکر 1979اور پھر 1983میں ایم آر ڈی تحریک کے وقت پارٹی ورکروں نے ہر طرح کے ظلم وستم کو برداشت کیا بلکہ اپنے آپ کو تیل لگاکر آگ لگائی ۔۔۔پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کے پاس اتنے بہادر ورکرز نہیں جتنے پیپلز پارٹی میں موجود ہیں۔ جو کسی بھی طرح کے آمر کا مقابلہ کرسکیں یہ مثال تاریخ میں دی جاتی ہیں۔
اگرذولفقار علی بھٹو کو سمجھنا ہے تو پہلے بھٹو دشمنی کو علیحدہ رکھ کر دانشور صاحبان کھلی بحث کریں اور 1967سے لیکر 1977 تک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ا ±س دہائی میں پاکستان میں کیا کچھ ہورہا تھا ، بھٹو نے مشرقی پاکستان علیحدگی کی حمایت نہیں کی بلکہ دسمبر 1978میں سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب کا بیان کو ضرور پڑھیں تاکہ نوجوان نسل کو سمجھ آئے کہ بھٹو صاحب نے اقتدار کے معاملے میں کہا کہ دونوں طرف کی جماعتیں ملکر ایک بڑی حکومت(مخلوط) بنائینگے جس سے ملک کی ترقی ومعاشی استحکام بہترین بنایا جائے اور جمہوریت مضبوط ہوسکیں۔پیپلز پارٹی کے ساتھ انصاف ہوا وہ تاریخ ہیں۔
4اپریل 1979کو پنڈی جیل میں پھانسی دیکر ا ±ن کا عدالتی قتل کیا گیا۔دانشوروں سے لیکر عام آدمی کا کہنا ہے کہ بھٹو ایک بہت بڑا لیڈر تھا ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بھٹو صاحب پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے چاہتے تھے جیسے آج اسلامی دنیا میں ترکی کی مثال دی جاتی ہے،قوم کے مستقبل نوجوان کو ذوافقار علی بھٹو کے حوالے سے درست فیصلہ کرنے کیلئے یہ ضروری ہے اس نئی نسل کو غلط تاریخ نہ پڑھائی جائے انہیں تاریخ کے تمام درست پہلو دیکھائے جائیں تاکہ انہیں اس بات کا احساس ہو کہ وطن عزیز پاکستان کیلئے اسی ملک کے رہنماﺅں نے کیا ، کیا اقدامات کئے۔
Zulfikar Ali Bhutto
18کڑور سے زائد پاکستان کی عوام آج بھی پیپلز پارٹی کے چیئر مین سے لیکر کو چیئر مین اور ہر جیالے سے ایک سوال نہ صرف بھٹو کی برسی پر بلکہ پیپلز پارٹی کے تاریخ ساز دن کے موقع پر یہ سوال کرتی ہے پیپلز پارٹی کے ابتدائی دو ادوار میں عوام کو روٹی ، کپڑا اور مکان کہاں تک دیا گیا اور تیسری حکومت جس کے سربراہ آصف علی زرداری تھے انہوںنے بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو کیونکر گرفتار نہیں کیا اور ان ہی کی اک بہن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اپنے دور حکومت میں اقدامات کیوں نہیں کئے ؟؟؟