واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکا نے شام کے شہر ادلب میں کیمیائی فضائی حملے میں دسیوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے بشار الاسد حکومت کو قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ادلب میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے بعد بشارالاسد کا اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ شامی قوم بشارالاسد کو اقتدار میں قبول کرنے سے انکار کر دیں۔
دوسری جانب امریکی ایوان صدر کے ترجمان نے بھی ادلب میں کیمیائی حملے کی مذمت کی ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ حکومت کے پاس فی الوقت شام میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی آپشن زیرغور نہیں۔
وائیٹ ہاؤس کے ترجمان شون سبایسر نے دو ٹوک الفاظ میں ادلب میں ہونے والے کیمیائی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ایک ایسا حملہ جس میں بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا گیا انتہائی شرم ناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادلب میں اسد رجیم کی طرف سے کرایا گیا انتہائی وحشیانہ حملہ سابقہ امریکی انتظامی کے کمزور فیصلوں اور باراک اوباما کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ترجمان نے یاد دلایا کہ سابق صدر باراک اوباما کوئی بھی کام کرنے سے قبل صرف ’سرخ لکیر‘ کھینچنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔
قبل ازیں واشنگٹن نے بشارالاسد کو مشرقی الغوطہ میں وحشیانہ حملوں پر سخت الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے اس کے سنگین نتائج پر بھی متنبہ کیا تھا۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ 21 اگست 2013ء کو مشرقی الغوطہ میں کیمیائی حملے کے نتیجے میں سیکڑوں عام شہری جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بعد امریکا اور روس کے درمیان معاہدے کے تحت اسد رجیم اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے پر مجبور ہوئی۔
سبایسر نے کہا کہ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ادلب میں تازہ کیمیائی حملے کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ اس پر ردعمل کے اظہار کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہا ہے۔ یہ حملہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔
اگرچہ ترجمان نے کہا کہ بشار الاسد کا اقتدار پر فائز رہنا شامی عوام کے مفاد میں نہیں رہا ہے مگر ایوان صدر کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے پاس بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کا کوئی پلان بھی زیرغور نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ہم شام میں کیا کریں گے مگر ادلب حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں شام کی موجودہ صورت حال اور ادلب حملے پر غور کیا گیا۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے ’رائیٹرز‘سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ادلب حملے کے شواہد جمع کر رہے ہیں۔ اگر یہ حملہ واقعی کیمیائی ہتھیاروں سے کیا گیا ہے جیسا کہ لگتا ہے تو اسے جنگی جرم قرار دیا جائے گا۔
حکومتی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ داعش کی شکست کے لیے بشار الاسد کے ساتھ تعاون خارج از امکان ہے۔ ایسی کوئی بھی تجویز زیرغور نہیں۔