تحریر : ابنِ نیاز طلباء کسی بھی ملک کی معیشت میں، ترقی و ترویج میں ایک ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ طلباء پوری لگن سے دل کر محنت کرتے ہیں. اپنے تعلیمی میدان میں کامیابیاں سمیٹتے ہیں. اور پھر اس حاصل کردہ علم کو اپنے اپنے میدان میں لاگو کرتے ہیں. انجنیئر ہیں، سائنسدان ہیں، ڈاکٹر ہیں تو اپنے علم کو، اپنی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں. ظاہر ہے تعلیم مکمل کرنے کے بعد تو عملی کام ہی کیا جاتا ہے لیکن بحیثیت طالب علم ان پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پاکستان کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔جس طرح ایک تعلیمی ادارے میں مختلف برادریوں کے، قومیت کے افراد ہوتے ہیں تو ان میں اتفاق یا نااتفاقی پیدا کرنا آسان ہوتا ہے. اگر مختلف مزاج کے، برادری کے طلباء آپس میں اتحاد کر لیتے ہیں اور انفرادی مفاد کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں تو یقیناً یہ نہ صرف قوم کے لیے اچھا ہوتا ہے بلکہ وطن کو بھی فائدہ پہنچتا ہے. طلباء کے آپس کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے وطن دشمن عناصر ان میں تفرقہ نہیں ڈال سکتے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
قائد اعظم نے طلباء کو پاکستان کا سپاہی قرار دیا تھا. انہیں طلباء پر بھرپور اعتماد تھا۔ 30 اکتوبر 1937 کو لاہور میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا. ”تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوت ارادی، توانائی، عمل اور عظمت کردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔قائد اعظم نے طلباء کو ہراول دستہ قرار دیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ پاکستان کی ترقی میں ہر ممکن طور پر بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں صرف بہترین رہنمائی کی ضرورت ہے. اور ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم اور اقبال کی بہترین رہنمائی میں طلباء نے تحریک پاکستان میں اپنا کردار انتہائی عمدگی سے نبھایا۔ “مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے”۔ اسی طرح 1937 میں کلکتہ کے اجلاس میں قائد اعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”نئی نسل کے نوجوانوں آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا۔”
بقول اقبال… تو شاہین ہے پرواز سے کام تیرا تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
چونکہ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے لہذا ایک طالب علم با شعور ہوتا ہے. اس کے پاس علم کی طاقت کے ساتھ ساتھ اتحاد کی طاقت بھی ہوتی ہے. وہ ملک کے مفاد میں، ملک کے اس ستحکام کی خاطر اپنا پیغام آسانی سے ملک کے کونے کونے میں پہنچا سکتا ہے. طلباء کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے. صدر پاکستان ایوب خان کے دور کی مثال ہمارے سامنے ہے. جب انکی حکومت کو زوال آیا تو اس کے پیچھے طلباء کی قوت تھی جس کو بھٹو نے استعمال کیا تھا. اگر ایک حکومت گرانے میں طلباء اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں تو استحکام پاکستان میں بھی وہ اپنا کردار بہترین طریقے ادا کر سکتے ہیں.
جس طرح پاک فوج کے جوان قوم کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کو پہنچتے ہیں، جیسے زلزلہ ہو، سیلاب ہو، کوئی بھی آفت ہو، پاک فوج وہان موجود ہوتی ہے. اسی طرح ہمارے دیس کے طلباء بھی پیچھے نہیں ہٹتے. ایسی مشکلات میں ہر قسم کی سیاست سے بالا تر ہو کر دیس کے عوام کی مشکلات دور کرنے نکل پڑتے ہیں. جذبے اور ہمت جوان ہوتی ہے. مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ ہوتا ہے. انہی طلباء کی بدولت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہر سیاسی پارٹی اپنا پرچم بلند رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
تقریباً ہر سیاسی پارٹی کا طلباء کا ایک علیحدہ ونگ بنا ہوتا ہے۔ جیسے مسلم لیگ کا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، جمیعت علمائے اسلام کا جمیعت طلباء اسلام وغیرہ۔ کسی بھی پارٹی نے کسی شہر میں جلسہ کرنا ہو تو طلباء پر یہ ذمہ داری ڈال لی جاتی ہے کہ وہ اس جلسے کو کامیاب بنائیں گے. عموماً جلسے کی کامیابی کا تناسب حاضرین کی تعداد سے لگایا جاتا ہے. اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ اگر ایک سیاسی جلسے کو طلباء کامیاب بنا سکتے ہیں تو وطن کے استحکام میں، وطن کی ترقی کی خاطر بھی وہ بہترین طریقے سے ہر کام سر انجام دے سکتے ہیں۔
کسی نے کہا تھا کہ اگر کسی قوم کو خراب کرنا ہے تو اس ملک کے طلباء کو گمراہ کر دیجئے، قوم بگڑ جائے گی ۔کیونکہ آج کے یہی طلباء کل کے معمار بنتے ہیں. ان ہی میں سے سائنسدان، انجنیئر، ڈاکٹر، ماہر معاشیات وغیرہ نکلتے ہیں۔ لیکن جب ان کو ہی غلط راہ پر گامزن کیا جائے گا تو منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے. وہ منزل جو پاکستان کو، پاکستانی قوم کو عروج و بام تک پہنچاتی ہے، اوج ثریا کی سیر کراتی ہے. طلباء کو قائد اعظم جیسا رہنما ملنے کی دیر ہے، انھوں نے جس طرح تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا، اسی طرح یہ اپنی اپنی مہارت کے میدان می کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کو تیار بیٹھے ہیں. شرط صرف مخلص رہنمائی کی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اگر طلباء پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر وطن کے مفاد میں سوچیں تو آج وطن عزیز میں یہ جو کرسیوں سے نااہل اور کرپٹ عناصر جڑے بیٹھے ہیں ان کو ملک میں کہیں چھپنے کی جگہہ نہ ملے۔ ہمارے یہ ذہین طلباء اگر اپنے شعور کو مثبت انداز میں استعمال کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ان شاء اللہ، پاکستان کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتی۔ طلباء اپنی بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ پیارے وطن پاکستان کو ترقی کی اس نہج تک لے جا سکتے ہیں کہ دنیا کا ہر ملک پھر یہ خواہش کرے گا کہ اس کو تعلیم کے لیے، اس کو اپنے ملک کی معیشت درست کرنے کے لیے، اس کو اپنے لیے کچھ کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرنا ہے۔ ان طلباء کی محنت کی وجہ سے پاکستان کا کارڈ واقعی اس طرح کا بن سکتا ہے کہ ہر ملک والا اپنے اپنے ملک میں پاکستان کے سفارتخانے کے سامنے ایڑیاں رگڑتا رہے اور اس کو ویزہ نہ ملے۔ لیکن شرط صرف خلوص سے محنت و لگن کی ہے، اور پاکستان سے محبت کی ہے۔
غلامی میں کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں