تحریر : ایم ایم علی پولیس نا صرف جرائم کی روک تھا م کرنے بلکہ ریاست میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی بھی ذمہ دار ہے اس کے علاوہ سرکا ری املاک کی حفاظت بھی پولیس کے زمرہ میں آتی ہے۔ پولیس کا محکمہ بنایا تو عوام کی خدمت کیلئے گیا تھا اور اس محکمے کا پہلا بنیادی مقصد جرائم پہ قابو پانااور دوسرا بنیادی مقصد عوام کی خدمت تھا۔لیکن پولیس عوام کی خدمت کیسے کرتی ہے اس کی کئی مثالیں الیکٹرنک و پرنٹ میڈیا پر آئے روز دیکھی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ عام آدمی تو پولیس سے ایسے خوفزداہ نظر آتا ہے کہ جیسے پولیس کوئی خلائی مخلوق ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کے سب پولیس والے ایک جیسے ہوتے ہیں یا مکمل طور پر یہ محکمہ کرپٹ ہے۔ محکمے میں چند کرپٹ عناصر کی وجہ سے پورے محکمے کو مورد الزام ٹھہرانااس محکمے کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ لیکن جس طرح ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے اسی طرح چند لوگ ہی پورے محکمے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کئی پولیس اہلکاروں نے فرائض منصبی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ہیں،ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پولیس کا کلیدی کردار ہے کئی بہادر آفیسروں اور اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا اور کئی آفیسر اور اہلکار جرائم پیشہ افراد کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔لیکن اس محکمے کو لے کر عام عوام کے اندر جو رائے پائی جاتی ہے وہ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔پو لیس کی کارکردگی کو تسلی بخش بنانے کیلئے گاہے بگاہے حکومتوں کی جانب سے اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں مگر ان اقدامات کے نتائج کم ہی سامنے آئے ۔اب پنجاب حکومت نے پنجاب پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے وردی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے علاوہ تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے اور پولیس اہلکاروں کی شناخت کے لئے سیکورٹی کارڈ متعارف کروائے ہیں ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف کے مطابق سیکورٹی کارڈ متعارف کروانے کا مقصد اہلکاروں کی دوران ڈیوٹی شناخت او ر استعداد کار بڑھانا ہے ،تھانے کا محرر اہلکار کی ڈیوٹی لگانے سے پہلے کمپیوٹر میں انٹری کرے گا جو سارا دن محفوظ رہے گا اور جیسے ہی اہلکار ڈیوٹی ختم کر کے تھانہ واپس آئے گا اس کا نام سیکورٹی کارڈ پر اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا اس کے علاوہ ایک سیکورٹی کیوآر کے ذریعے آفسر یا اہلکار کی تمام معلومات محفوظ رکھا جا سکے گا ،اس کارڈ کے ذریعے اہلکار کا ڈیٹا اور اس کی ڈیوٹی پوزیشن بھی معلوم کی جا سکے گی ،ڈاکٹر حیدر اشرف کے مطابق ان اقدام سے اہلکاروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔
قارئین کرام! ہو سکتا ہے کہ ان اقدام سے پولیس اہلکاروں کی کارکردگی میں بہتری آئے لیکن یہاں عوامی ذہنوں میں سوال یہ پیدا ہورہے ہیں کہ کیا پولیس کی وردی تبدیل کرنے اور سیکورٹی کارڈ متعارف کروانے سے قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے گی؟ کیا ایک عام آدمی کا پولس پر اعتماد بحال ہو جائے گا ؟ کیا ان اقدام سے تھانے میرٹ پر کا م کرنا شروع کر دیں گے ؟ کیا ان اقدام سے تھانے میں آئے ایک غریب سوالی کی داد رسی ہو سکے گی؟کیا ناکوں پر عام شہری کی تذلیل کا سلسلہ روک جائے گا ،؟ کیا محکمہ پولیس رشوت سے پاک ہو جائے گا؟ کیا آئندہ کسی غریب کی اُس بیٹی کو تھانے کے سامنے خود کو نذر آتش نہیں کرنا پڑے گا جس کو علاقے کے با اثر افرد نے زیادتی کا نشانہ بنایا ہواور اس کی ایف آئی آر بھی درج نا کی جارہی ہو؟ کیا وردی تبدیل کر دینے سے اس وردی میں ملبوس اہلکار کی سوچ بھی تبدیل ہو جائے گی ؟۔اس سے پہلے بھی پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ،محافظ فورس،اینٹی ٹیرارزم فورس اور ڈولفن فورس سمیت کئی شاخیں متعارف کروائی جاچکی ہیں لیکن ان سب کے با وجود کوئی قابل ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔
قارئین کرام! مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی ،کہ اگر پولیس کا محکمہ اپنے فرائض کی انجام دہی ٹھیک طریقے سے کرے تو ہمارے ملک میں تقریبا 80 فیصد جرائم پے با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے ،کیونکہ اکثر جرائم پیشہ لوگوں کو اسی محکمے میں موجود چند کالی بھیڑوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے بلکہ کئی جرائم میں تو یہ کالی بھیڑیں براہ راست ملوث ہوتی ہیں ۔پولیس فورس میں ایک عوامی فورس کی نسبت ایک سیاسی فورس کا عکس زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔ پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور عوامی خدمت کی بجائے سیاست دانوں کے پروٹوکول اور خدمت میں زیادہ مصروف عمل رہتی ہے ،سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کیلئے اور طاقتور کمزروں کو دبانے کیلئے جاگیر دار اور وڈیرے اپنے مزاروں کو ڈرانے دھمکانے اور ان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے اس فورس کا استعمال کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ محکمہ پولیس سے عام آدمی کا اعتماد کم ہو تے ہوتے بالکل ہی ختم ہو چکا ہے ۔کیونکہ جہاں مجرم کو پرٹوکول دیا جائے اور بے گناہ کو سزادی جائے مظلوم کی داد رسی کی بجائے اس کو دھکے دیے جائیں اور اس کے جائز کا م کیلئے بھی رشوت طلب کی جائے تو بھلا ایسے محکمے پر کوئی اعتماد کیونکر کرے گا ؟ یہاں اگر بات کی جائے پنجاب پولیس کی تو پنجاب پولیس کی افرادی قوت دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے اور مالی بجٹ بھی دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے اور سب سے زیادہ انگلیاں بھی پنجاب پولیس کی کار کردگی پہ اٹھائی جاتی ہیں ۔پنجاب پولیس میں بہت اچھے آفیسر اور سپاہی موجود ہیں لیکن بات پھر وہیںپر آجاتی ہے کہ پولیس میں موجود چند کرپٹ عناصر اس محکمے سمیت تمام اچھے پولیس افسران اور پولیس اہلکاروں کیلئے بھی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
اعلی احکام اگر ذاتی دلچسپی لیں تو اس محکمے کی اصلاحات کر کے اس کو ایک عوامی محکمہ بنایا جا سکتا ہے ۔جہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عام آدمی اپنی فریاد لے کر جاسکے اور اُس کو اس بات کا قوی یقین ہو کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔جرائم کی پشت پناہی کرنے والوں یا براہ راست جرائم میں ملوث ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کر کے ان کو قرار وقع سزائیں دی جائیں،لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی مصلتحوں سے بالا تر ہو کر فیصلے کیے جائیں ۔ قارئین کرام (یار لوگوں ) کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کا قبلہ درست کرنا تو سب سے پہلے اسے سیاسی وابستگی کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا جب تک پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا جا تا تب تک اس فورس کی کارکردگی بہتر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ،اگر اعلی حکام واقعی ہی تھانہ کلچر میں تبدیلی اور پولیس کی کارکردگی بہتری لانے کے خواہاں ہیں تو پو لیس کی وردی نہیںبلکہ اس کا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔