تحریر : سلیم سرمد مظفر گڑھ کی دھرتی شعر و ادب کے حوالے سے ہمیشہ زرخیز رہی ہے۔جناب رضا ٹوانہ مرحوم اور مخدوم غفور ستاری مرحوم مظفر گڑھ کی پہچان اورمعتبرحوالہ ہیں۔زمانہء ماضی کی طرح لمحہء موجود میں کچھ نام ایسے ہیںجو شعرو ادب کی آبیاری اپنے خونِ جگر کے ساتھ کر رہے ہیںموجودہ عہد کے نامور اور معتبر شاعر جناب افضل چوہان صاحب ہیںاستاد الشعراء افضل چوہان صاحب جہاں ایک خوبصورت اور پختہ لب و لہجے کے شاعر ہیں وہیں آپ ایک خوش الحان مقرر اور صدا کار بھی ہیں کافی عرصہ ٹی وی کے ساتھ وابستہ رہے اور آجکل اپنے شاگرد شعراء کی رہنمائی ‘مختلف ادبی تنظیموں کی سرپرستی اور شاعری کے ساتھ ساتھ ریڈیو سے بھی منسلک ہیں۔
متعدد شعری مجموعوںکے مصنف’خوش اخلاق وخوش گفتار’ ملنسار اور عاجزی و انکساری کا پیکر’ایک عظیم شخصیت ۔حال ہی میں اُن کا سرائیکی شعری مجموعہ” ہنجھ دا سیک” زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کرقومی ادبی اثاثے میں گرانقدر اضافے کا باعث اور ادبی حلقوںکی زینت بنا ہے’ جسے ناقدین قارئین اور ادبی حلقے سراہے بغیر نہ رہ سکے۔ ” ہنجھ دا سیک” سرائیکی اصنافِ شاعری خاص کر کافیوں پر مشتمل ہے۔180صفحات پر مشتمل خوبصورت ٹائٹل اور جلد کے ساتھ ساتھ شعریت کی چاشنی سے بھرپورادبی اور ثقافتی خزانہ مئی 2016ء میں اشاعت کے مراحل سے گزر کرمنظرِ عام پر آیا۔” ہنجھ دا سیک”کو میں نے ادبی کے ساتھ ساتھ ثقافتی خزانہ اس لئے کہا ہے کہ مذکورہ کتاب میں افضل چوہان کا اسلوب اور ان کی شاعری کی ہیت(جدیدیت کے امتزاج کے باوجود) روایتی اصنافِ سخن ‘ثقافتی استعاروںاورثقافتی زبان پر مشتمل ہے ۔” ہنجھ دا سیک”سرائیکی لوک ادب کی قصے کہانیوںاور سرائیکی ثقافتی زبان میں مستعمل استعارات’ تشبیہات’ کنائے قرینوں سے بھری پڑی ہے۔
خواجہ غلام فریداور مولانا لطف علی کے بعد کافی کا روایتی ‘ثقافتی اور تصوفانہ ذائقہ افضل چوہان کی کافیوں میں جھلکتا چھلکتا نظر آتا ہے۔افضل چوہان کی کافیوں میں روایتی لفاظی کا چولا پہنے شعری اور ثقافتی اقدار جہاں مسحور و مسرور کن جھلک دکھاتے ہیں وہیں ان کی شاعری میںسماجی اور معاشرتی مسائل کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ‘قدیم روایات’آکھان اور دیگر ادبی و ثقافتی سرمایا بھی شاعری کی شکل میں محفوظ ہے۔افضل چوہان نے ہجر و فراق اور عشق و محبت کے جذبات کی لَو کو بھی تیز رکھا ہے۔گویا افضل چوہان کی شاعری تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے تمام رنگوں سے رچی بسی ہے۔
” ہنجھ دا سیک” میں افضل چوہان کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے کا اظہارِ کرتے ہوئے پروفیسر عمران میر کچھ اس طرح رقمطراز ہیں: ” ہنجھ دا سیک”ہنجھ دا سیک اجوکے عہد دے ہر قسمے رنگاں دا اینجھا البم ہے جیندے وچ پورا وسیب اپنے خال و خد سودھا ‘آپنے گناہ ثواب سودھا پوری جزیات دے نال موجود ہے۔افضل چوہان ہنجھ نال آپنی وسوں اتے وسوں واناں دیاں تصویراں بنائن اتے ہر تصور لاتھی کہانی کوںشاعرانہ سلیقے نالب بیان کیتے اتے اے وی ڈسیے جو اے کہانی ساڈی آپنی ہے’مانگویں نی۔افضل چوہان شالا ایہو جیہاں تصویراںبنڑیندا رہ ونجے” پروفیسر عمران میر’صدر شعبہ سرائیکی گورنمنٹ کالج ڈیرہ۔
اسی طرح ” ہنجھ دا سیک”کی شاعری کی بارے میںڈاکٹر طاہر تونسوی اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں: ” افضل چوہان دی غزل دی بہوں خوبی ایہ ہے جو اوندے وچ عصری شعور تے آگہی وی ہے۔ تے نویں دور دے مسائل دا ادراک وی۔ تے اے موضوع اوندے شعراں وچ ڈھل تے سامنے آ ویندے تے ایں طرح اوندی غزل وچ اوندا شعری تے فکری تجربہ واضح تھی کرائیں سامنے آندے البتہ ہک خوبی ایہ ہے جو غزل دی روایت نال اپناں تخلیقی عمل اگوں تے ودھیندے”
ڈاکٹر طاہر تونسوی تصور اور روایتی اسلوب کے علاوہ افضل چوہان کی اس کتاب میں موجود شاعری میں جو سب سے بڑی خاصیت اور انفرادیت ہے وہ ہے عشق کا بحرِ بیکراں اور تصوف کے اسرار و رموز۔عشق اور تصوف کی آمیزش نے ہمیشہ شاعری اور سخن کو تظہیر بخشی ہے۔زیرِ نظر اشعار میں افضل چوہان کی صوفیانہ مسند پر براجمانی اور تصوف کی مستی میں گندھے اشعار دیکھئے:
نہ جنگل نہ بَر کوں پھول ہُن توں آپ کو آپ اچ گول پہلے عشق سمند رجھاگ ول اسرار دی گنڈھڑی کھول ٭٭٭
منصور حلاج کو اناالحق کا نعرہ لگانے پر زمینی خداؤں نے سولی پر چڑھا دیا تھامگر حق کی صدا کو روک سکے اور نہ ہی سچ کا باب بند کر سکے۔یہ مشیتِ ایزدی ہے کہ راہِ حق میں نکلنے والوں کا کڑا امتحان لیا جاتا ہے۔سولی پر لٹکایا جاتا ہے’کھال اُدھیڑی جاتی ہے’کوڑے برسائے جاتے ہیں’ گردنیں کاٹی جاتی ہیں’ تپتے جھلستے صحراؤں کی گرم ریت پرلٹایا جاتا ہے ‘پیروں میں بیڑیاں اور گلے میں جبرو استبداد کے طوق پہنائے جاتے ہیں۔مگر ان اہلِ حق کا عشق ہمیشہ دیدنی اور قابلِ آفریں ہوتا ہے ۔ بجائے تکلیف اور کرب کے اظہارکے اناء الحق اور احد احد کی صدا بلندکرتے نظر آتے ہیں۔افضل چوہان بھی اپنے قلم سے حق کی پرستش کر رہے ہیںمعرفت کے جس مسند سے افضل چوہان فیض یاب ہیں اس میں ان کے من کے منصور کااضطراب نمایاں اور دیدنی ہے:
ولا منصور بیٹھا ضد کریندے بیا جھوٹا ولا ہک کھانونا ہے ٭٭٭
افضل چوہان کی کافی کے ساتھ انکی غزل میں بھی تمام کائناتی موضوعات اور عصری مضامین لازماًپائے جاتے ہیں۔آپ کی غزل بھی بہت پختہ اور شیریں و آفریں ہے۔آپ کی غزلوں میں روایت کے ساتھ جدت بھی لازم و ملزوم ہے۔آپ کا فکری اسلوب جب غزل میں وارد ہوتا ہے تو سماعتوں اور محسوسات کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے اور مسحور کن کیفیت طاری ہو جاتی ہے:
عشق کوںظاہر کرا ں یا آپ کو بے گھر کراں تُوںڈسا کیویں ہمالہ ذات دا میں سَر کراں پتھراں کو موم کیتم ایہ تا ہا وس وچ میڈے ہُن ڈسا میں موم کوں کیوں ولا پتھر کراں ٭٭٭ افضل چوہان نے ہمیشہ مثبت لب و لہجہ اپناتے ہوئے جہاں تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو نئی خلعت عطا کی وہیںمعاشرے میں رائج تمام رویات چاہے وہ فرسودہ ہوں یا ارتقائی’ یا عہدِ حاظر کے زما نی مسائل ہوں’ان سب پر ایک دل لگتی(Heart Touching)چوٹ لگاتے ہیں: چوراں دے دل چھوٹے ہوندن ٹھگاں دے دل وڈے ہوندن غاصب دا دل ہونداکائنی ٭٭٭ منہ کالا تھئے گُت مُنی میں عشق اچ کے تئیں پُنی میڈیاں لیر کتیر پوشاکاں میڈی لیر لویراں چُنی میکوں ساڑے ہجر حشر وچ گئی درد دے سیک اچ بھُنی پندھ رات اندھاری جنگل میں ایویں تا نَیں رُنی ٭٭٭
افضل چوہان بلا شبہ شعرو ادب کی دنیامیںایک بہت بڑا نام و مقام رکھتے ہیں ۔فروغِ ادب کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف ملک کے تمام ادبی حلقوں میں کیا جاتا ہے ‘مگر میںانہیں ایک معتبر شاعر و ادیب کے علاوہ سرائیکی تہذیب اور ثقافت کا امین قرار دیتا ہوں۔انہوں نے اپنی شاعری میں پنہاںسرائیکی تہذیب کو عیاں اور واشگاف کیا ہے اور سرائیکی ثقافت کو اپنی شاعری کے ذریعے زندہ و امر کرنے کی بھر پورسعی کی ہے۔افضل چوہان کی شاعری کے پس منظرکو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ بلاشبہ تہذیب اور ثقافت کے شاعر اور محافظ ہیں ۔ آخر میں اُن کی کافی کے چند اشعار کا حظ اُٹھائیںجو نظر انداز کئے جانے کے ہر گز قابل نہیں:
کراں پُھل تعویذ وسیلے متاں یار ملم کہیں حیلے اساں تتڑی روہی جائے ساڈے اندر ٹبڑے ٹیلے اساں ڈیلھے لال کرینہ دے اساں ساوے رتڑے پیلے اساں بویاں ببلیں جالیں ساڈے رنگ بہوں بھڑکیلے سب سنگتی ساتھی ٹُر گئے ودا افضل آپ کوں گھیلے