تحریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدہ سنبھالتے ہی عدلیہ کے معاملات میں چند نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں عدالتوں میں مانیٹرنگ کی غرض سے کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں شائد اِس طرح یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ بُرائی صرف عدالتی نظام میں ہی موجودہے یا پھر وکلاءمیں؟ کیونکہ اِس مانیٹرنگ کے بعد 27جنوری کو ہم نے بڑے بڑے نجی ٹی وی چینلز پر ایک ویڈیو ملاحظہ کی جس میں وکلاءکی ایک کثیر تعداد ایک کمرہِ عدالت میں دورانِ بحث آپس میں گتھم گتھا ہوگئی تھی ۔بے شک یہ ویڈیو اصلی تھی مگر اِس کی تاریخ نقلی تھی کیونکہ 27جنوری کویہ ویڈیو نجی ٹی وی چینلز پر نشر کی گئی تھی اور نجی ٹی وی چینلز کے بڑے بڑے بے تاج بادشاہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ”آج سیشن کورٹ لاہور میں یہ ہوا“جبکہ یہ ویڈیو 27جنوری کا نہیں بلکہ 12 جنوری کا تھا کیونکہ تاریخ اور وقت ویڈیو کے دوران لکھا نظر آتا ہے۔
مانیٹرنگ کے سلسلہ میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک جسٹس صاحب کو انسپکشن جج مقرر کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اِس ویڈیو کے نجی ٹی وی چینلزتک پہنچنے میں ملوث شخص کو تلاش کرکے اِس کے خلاف کوئی کاروائی کی یا نہیں؟مگر اِس ویڈیو کے نشر ہونے سے وکلاءکی ساکھ بہت متاثر ہوئی بے شک یہ امر قابلِ مذمت تھا ایسے واقعات رونما نہیں ہونے چاہیے ۔وکلاءبرادری کی اکثریت بھی ایسے واقعات کی مذمت کرتی ہے دراصل ایسے واقعات وکلاءبرداری کے درمیان قائم ”بھائی چارے“ پرسوالیہ نشان کے مترادف ہیں کیونکہ و کلاءبرداری کے ”بھائی چارے“ سے ہمیشہ ہی سب کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواہ اِس میں حکمران شامل ہوں یا کوئی اور! مانیٹرنگ کرنے کا اقدام ایک اچھا عمل ہے مگر اِس سے یہی تاثرلوگوں تک پہنچ رہا ہے کہ بُرائی صرف عدالتی نظام میں ہی ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ شائد پولیس کا تفتیشی نظام شرفاءکے ہاتھ آچکا ہے وہاں کیمرے کیوں نہیں نصب کیے جاتے ؟FIRتو پہلے ہی عدالتوں کی حکم پر درج ہوتی ہیں جس کے بعد تفتیشی افسر ”بڑی ایمانداری “سے جرم میں ملوث ملزم کو ”بے گناہ“قرار دے دیتا ہے ۔خاص طور پر جس مسئلہ میں ”پیسہ“یا فراڈ کا معاملہ ہو توتفتیشی افسرہمیشہ پہلے ملزم سے رابطہ کرتا ہے جس کے بعد مدعی مقدمہ کوتھانے جاکر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شائد وہ ہی اصل ملزم ہے۔
ویسے آج کل پنجاب پولیس کے پرانے ”جوانوں“کو نئے رنگ کا یونیفارم پہنادیا گیا ہے۔ کیا اِس سے اُن کے کردار میں بھی کوئی تبدیلی متوقع ہے؟اِس کے علاوہ ہرتھانے میں ایک ” استقبالیہ ڈیسک “بنادیا گیا ہے جہاں کمپیوٹرکا علم رکھنے والے یعنی پڑھے لکھے نوجوانوں کو بیٹھا یاگیا جو کسی بھی سائل کی درخواست پر فوراً ڈائری نمبر لگا دیتے ہیں مگر اُس کے بعد درخواست ”محرر“ صاحب کے حوالے کردی جاتی ہے پھر اُس درخواست کے ساتھ وہی ”پرانا سلوک “ ہوتا ہے۔
ہمیشہ کسی بھی معاشرے میں بُرائی کم ہوتی ہے مگر وہ نمایا ں نظر آتی ہے ۔بے شک عدلیہ کی مانیٹرنگ کی جائے مگر باقی نظام کو بھی تبدیل کیا جائے جس میں پولیس کے تفتیشی نظام کے علاوہ جج صاحبان کے چیمبرز میں بھی کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ کون کون انصاف کی خرید وفروخت میں ملوث ہے۔
اگرارباب ِ اختیار یہ سمجھ رہے ہیں کہ اُن کے اِن اقدامات سے کوئی تبدیلی متوقع ہے تو ایسا ہر گز ممکن نہیں کیونکہ جب تک نظام کوسیاسی مداخلت اورکرپشن جیسی بُرائیوں سے مکمل پاک نہ کیاگیاتو اُس وقت تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے۔