تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری گرمی کے آغاز سے ہی جس طرح لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے اس سے امسال موسم گرما میں تو بجلی کا نام نہاد جن ایک طاقت ور بوڑھے عفریت کا روپ دھار لے گااور شدید گرمی کے دوران بجلی ناپید ہونے پر بوڑھوں بچوں کی اموات بھی بتدریج بڑھتی چلی جائیں گی راتوں کو مچھروں کا راج ہوگا اور دن کو پسینہ سے بھرپور بدبو دار جسم نڈھال ننھے بچوں اور تنگ و تاریک غلیظ گلیوں میں رہائشی خواتین پر ایسے حکمرانوںکی حکومت قائم رہے گی کہ جن کے ہاں ان کی محلات نمار ہائشوں اور سرکاری دفاتر میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی یہ” تحفہ “صرف غریب عوام کے لیے ہی مخصوص ہے “جس تن لاگے اس تن جانے ” کی طرح ہمارے آقائوں اور مقتدر بیورو کریٹوں کے دفاتر اور گھروں میں کبھی بجلی گئی ہی نہیں بلکہ ہاتھ باندھے مسلسل تابعداری کرتی رہتی ہے تو بھلا انھیں کیونکر”ماسی مصیبتے بجلی” کی کمی سے جو مزا آتا ہے اس کا کبھی احساس ہوسکتا ہے ۔واپڈا کبھی بجلی کی بوسیدہ تاروں کی درستگی،کبھی پانی کی کمی سے پیداوار کے متاثر ہونے اور ٹرمپنگ جیسے بہانے تراشتا رہتا ہے۔
دفاتر میں فون کرو تو ہمیشہ مصروف ملے گاکہ متعلقہ ملازمین کیوں سنیں۔مگر بابا یہ سب کہانیاں ہیں! بجلی کی کمپنیوں کو اربوں روپے حکومت کی طرف سے عرصہ دراز سے ادا ہی نہیں کیے جارہے تو وہ کاہے کو بجلی بنائیںاور حکومتی ٹرانسفارموں کو مہیا کریںبھاڑ میں جائیں عوام اور ان کے حکمران کہ بجلی مالکان کی ان سے کون سی رشتہ دار ی ہے کوئی کاروباری شخص تو گھاٹے کا سودا کر ہی نہیں سکتا پھر یہ بجلی ساز کمپنیاں چونکہ بیرونی ممالک سے متعلقہ ہیں اور سالوں سے حکمرانوں کے ناز نخرے اٹھاتی اور مال متال سے بحرحال محروم چلی آرہی ہیں وہ کیوں بغیر پیسے والا مزید محبت کا مذاق جاری رکھیںسابق وزیر اعظم المشہور راجہ رینٹل کے بجلی پلانٹس کا ذکر تو بہت چلا مگر” مک مکا” کی سیاست نے سبھی کو معافیاں دے ڈالی ہیںکہ حکمران اور اپوزیشنی کرپشنی بھائی چارہ مشترکہ ہے .اب کی یہ معافیاں تلافیاں پرویز مشرف کے این آر او سے بھی کم خطرناک نہیں کہ ان “ایسی محبت بھری داستانوںنے غریب عوام کی قبر دوہری ہی نہیں کر ڈالی بلکہ توڑ ہی ڈالی ہے صنعتی ادارے بند پڑے ہیںمزدور اور ان کے بلکتے بچے فاقہ کشی کا شکار ہیں کارخانے چلیں گے تو مزدور کام کرسکیں گے تو ہی پیداوار ہوگی اور انھیں معاوضہ ملے گامگر جب مشین کا پہیہ بغیر بجلی کے گھوم ہی نہیں سکتا تو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دال روٹی کہاں سے آسکے گی۔
اب ایسے گناہ گار کرپٹ حکمرانوں کے ادوار میں خدا کی طرف سے من و سلویٰ توآسمانوں سے اترنے سے رہا۔ موجودہ حکمران مسلسل دعوہ زن ہیں کہ2018کا سال لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا سال ہو گاایسی محیر العقول باتیں دہراتے رہنے سے کیا فائدہ ؟ میاں صاحب بیورو کریسی آپ کا دھڑن تختہ کرنے کے پلان بنائے ہوئے ہے اور آپ کو گہری کھائی یا کنواں میں دھکا دے کر آ پ کے پسندیدہ بیورو کریٹ پیچھے سے بھاگ جائیں گے۔ایک طریقہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا عوام کو سمجھ میں آتا ہے کہ2018تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ اس طرز سے جاری رکھی جائے کہ اگلے انتخابات سے ایک ماہ قبل وہ ساری جمع شدہ بجلی چوبیس گھنٹے چالو یعنی مہیا کر ڈالی جائے اور نعرے لگ جائیں اور میاں کے بھی وجن !کہ دیکھا وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے اس لیے ووٹ میاں نوں پائو اور ہمیں ہی دوبارہ مقتدر بناڈالوکہ دیکھا ہم نے ماسی مصیبتے بجلی آپ کے گھر میں باندھ رکھی ہے مگر ایسا دھوکہ پلان بھی شاید کامیاب نہ ہوسکے کہ انتخابات تک واپڈائی بیورو کریٹ بھی دوسرے بیورو کریٹوں کی طرح نک و نک ہو چکے ہوں گے اور 1977کی نظام مصطفی تحریک کی طرح خود ہی بیورو کریسی چاہ رہی ہوگی کہ شریف برادران سے جان خلاصی ہو جائے تو بہتر ہے اس لیے وہ ملازمین کے ذریعے ہی بجلی بند رکھنے کا پلان بنا چکے ہوں گے۔
اس طرح” لوڈشیڈنگ خاتمہ کا دھوکہ پلان”بھی مکمل ناکام ہو جائے گا ایک اور طریقہ واردات بھی بحر حال موجود ہے کہ حکمران پہلے سے بھی زیادہ بیرونی سامراجیوں یہود وہنود کے تابعدار غلاموں کا روپ دھار لیں اورسود خوروں کی چھٹی حس بھی یقین کرلے کہ ان کی اب والی ” وفا” مستقل اور پائیدار ہو گی تو وہ اربوں ڈالرز ان پر نچھاور کر ڈالیں گے مال اندر اور چوہا جالندھر حکمران راجہ رینٹل کی طرح اپناخاصامال پانی رکھ کر بھی مہنگے بجلی گھر بنا ڈالیں اور بجلی کی رو بحال ہو جائے مگر پھر بھی یہ سب کچھ الیکشن کے پولنگ اور زیادہ سے زیادہ انھیںاقتدار کی دوبارہ منتقلی تک جاری رہے گااور پھر ویسی ہی اندھیری رات ہو گی جیسے اب آپ غریبوں کی راتوں کو مچھروں سے کشتیاں کرواتے ہیں۔
اس طرح خود حکمرانوں کی حکومتی خر مستیاںموجودہ دور ہی کی طرح جاری و ساری رہیں گی ہاں! ایک آخری اور موثر راستہ باقی ہے کہ خلق خدا مہنگائی ،بیروزگاری لوڈ شیڈنگ وغیرہ سے تنگ آمد بجنگ آمد ہو کر چکوں گوٹھوں ،گلیوں ،کوچوں سے ایک ہی نعرہ تکبیر اللہ اکبر اللہ اکبر بلند آوازوں سے لگاتی اور آقائے نامدار محمد مصطفیۖ کے پاک درود شریف کا ورد کرتی ہوئی نکلے اور پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر موجود ہ حکمرانوں اور نام نہاد اپوزیشنی راہنمائوں اور ان کی پارٹیوں کوجمہوری جوتے بذریعہ ووٹ مار کر ان کا دھڑن تختہ کر ڈالے یوں اللہ اکبر کی بنیاد پر چلی ہوئی تحریک کامیاب ہو تب عالم اسلام پاکستانیوں سے اپنی محبت کی پینگیںبڑھا کر انھیں اربوں روپے غیر سودی قرض حسنہ دے ڈالے جن سے سامراجیوں کے قرضے بھی یکمشت اتر سکیں اور آئندہ تمام دھاتیںزمینوں پہاڑوں سے نکال کراور بین الاقوامی مارکیٹوں میں فروخت کرکے بھائی بندوں کے قرض بھی اتر جائیں اور یہ تحریک ملک کی فلاح و بہبود کے لیے موثر پلاننگ کے ذریعے سکیمیں تیار کرے تاکہ ملک خوشحال ہو کر صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت قرار پا جائے وما علینا الا البلاغ۔