تحریر : مرزا رضوان بہت حیران کن خبر سن کر دل کچھ دیر تو خاموشی کی ڈگر پر ہی چلتا رہا ہے کہ سرگودھا کے نواحی گائوں چک 95 شمالی پکا ڈیرہ میں دربار کی گدی نشینی کے تنازعہ پر مخالف گروپ کی 4 خواتین سمیت 20 افراد کو ڈنڈوں اور چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا، ابتدائی اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس لرزاخیز واردات کے ملزم عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں نے نعشوں کی بے حرمتی بھی کی گئی، کہا یہی جا رہا ہے کہ وہاں پر تشدد کی بنیاد پر مریضوں کو شفا اور گناہوں سے پاک کیا جاتا اور انہی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزم مقامی زمیندار علی محمد گجر کا گدی نشین تھا، پولیس کے مطابق ملزم عبدالوحید کا کہنا تھاکہ اس نے اپنے ”مرشد ”کے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیا ہے یعنی اس کے بیان نے ثابت کردیا کہ یہ 20 افراد کا قتل 26 ماہ قبل رونما ہونیوالے واقعہ کا شاخسانہ ہے، اب ”مرشد”کا یہ جانثار”مرید ”پولیس کی حراست میں ہے ،پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوچکا ہے ، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ”رپورٹ”طلب کرلی ہے، بلاشبہ اس واقعہ نے لوگوں کو ہلاکررکھ دیا ہے اور ہر آدمی ”پیری مریدی”پر کھل کر اظہار کررہاہے،جس کے جو دل میں آتا ہے کہ ”کہہ’ ‘رہا ہے ، لیکن صرف ایک دودن کے شور شرابے سے ایسے گھنائونے ”کھیل”کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے لئے ہمارے معاشرے کے ہر فرد کو ”نشاہدی ”کرنی ہوگی کہ کہاں کیا ہورہاہے اور کون کون ایسے گھنائونے اور انسانیت سوز واقعات میں ”سہولت کار”ہے ، ہمیں وطن عزیز پاکستان کا نام بلند کرنے کا اگر ”شرف”نہیں حاصل ہوسکتا تو ہماری ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے کہ کسی ایسی حرکت کے ہرگز مرتکب نہ ہوں جو ہماری ذاتی ،ہمارے معاشرے ، ہمارے شہر اور ہمارے وطن عزیز کی (خدانخواستہ) بدنامی کا باعث بنے۔
محترم قارئین۔۔۔! وطن عزیز پاکستان جس کو کلمہ حق کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ، قیام پاکستان بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر مشاہیر پاکستان کی سربراہی میں اس تحریک میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں ،علماء اکرام ، دانشوروں سمیت تمام مکاتب فکر سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ ہمارے جید علماء و مشائخ عظام نے بھی عملی فکر ی اور ہر انداز سے بھرپور کردار ادا کیا ، جن میں مانکی شریف، گولڑہ شریف، علی پور سیداں شریف و دیگر جید آستانوں کے روح رواںاور قابل صد احترام ”پیرصاحبان ”نے بھی بڑھ چڑھ کر کلیدی کردار ادا کیا ،تحریک پاکستان کو عملی تعاون سے کامیاب بنانے کیلئے اپنے ساتھ ساتھ اپنے مریدین کو بھی پابند کیا ، وہ چاہے پاک و ہند کے کسی بھی کونے میںبستے تھے سب نے اپنی ”مشائخ عظام ”کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظم محمد جناح اور دیگر کارکنا ن پاکستان کا بھرپور اور عملی ساتھ دیا ، اس حقیقت کو کسی صورت جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اس آواز پر ”پیر صاحبان ”کے ہزاروں مریدین و عقیدتمندوں نے تحریک پاکستان کی تکمیل میں اپنا عملی ، فکری کردار ادا کرکے مسلمانوں کیلئے کلمہ حق کی بنیاد پر ایک علیحدہ مملکت خداداد کے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرے میں اہم کردار اد اکیا ، اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ برصغیر پاک و ہندمیں قرآن و سنت سے رہنمائی لیتے ہوئے دین حق کی آمد ، اشاعت اسلام اور لاکھوں بے نور دلوں کو ”ایمان کامل ” سے روشناس و منور کرنے کا ”سہرا”بھی انہیں بزرگان دین کے” سر” ہے،شاید انہیں وجوہات کی بنا پر وطن عزیز پاکستان کو ”اولیاء کا فیضان”کہا جاتا ہے۔
آج بھی دنیا مخدوم امم سید ہجویر ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ،حضرت خواجہ غریب نواز ،حضرت لعل شہباز قلندر ،حضرت مجدد الف ثانی ،حضرت بہائوالدین نقشبند ، حضرت خواجہ نور محمد چوراہی ، حضرت پیرسید جماعت علی شاہ ،مجدد عصر حضرت پیر سید ولی محمد شاہ صاحب چادروالی سرکار سمیت پاکستان کے دیگر لاتعداد بزرگان دین جن کے اگر میں نام اور ان کی زندگی کا مقصد اور حاصل تحریر کرناشروع ہوجائوں تو یقینا میرا یہ ”کالم” لاتعداد اقساط پر محیط ہوجائے ان کی زندگی ہمارے سامنے ہے اور ہمارے لئے مشعل راہ بھی ہے ،جنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن و سنت ، اللہ رب العزت اور اس کے پیارے حبیب نبی کریم ۖ کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر گزار دی، جن کی حیات کا اگر ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگان دین نے کبھی بھی احکامات الہیہ اور شریعت محمدی ۖ کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا، یہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستیاں ہیں جنہوں نے معاشرے میں عملی طور امن و محبت اور بھائی چارے کی فضا کو بھی قائم کیا اور متلاشیان حق کو اللہ رب العزت اور اس کے پیارے حبیب نبی آخرالزماں حضورنبی کریم ۖ کے احکامات کا پابند بھی کیا ،تمام مذاہب و مسالک کو ایک جگہ متحد کیا ،یہ تمام ہستیاں خود بھی ہمہ وقت یاد الہٰی سے غافل نہ ہوئیں اور نہ ہی اپنے مریدین و عقیدت مندوں کو غافل رہنے کادرس دیابلکہ ان کا تو مشن ہی ہرسانس کے ساتھ”اسم اعظم” اللہ۔۔۔ اللہ۔۔۔ اللہ کی ادائیگی کا رہا ہے۔
انہیں کے آستانوں سے ”راہ حق” کی عین نشاہدی ہوئی اور متلاشیان حق کو ”عین الیقین”کروایا گیا ، آج بھی ان کے آستانے امن و محبت اور ”روحانی فیض”کے حصول کا باعث ہیں ،یہ وہی ہستیاں ہیں کہ جن کے ہاتھ پر لاکھوں غیرمسلموں نے ”کلمہ حق”ادا کیا اور اپنی زندگیوں کو اندھیروں سے نکال کر دین حق کے نور سے منورکرلیا، مختصراً عرض کرتا چلوں کہ انہوں نے یہ سب اپنے اخلاق و کردار کی بنیاد پر کیا نہ کسی تلوار یا بندوق کی نوک پر ۔۔۔آج بھی اللہ رب العزت کی رحمت ”شیطانیت”سے کہیں عروج پر ہے ، آج بھی قرآن و سنت اور سیرت النبی ۖ کے مطابق زندگی بسر کرنیوالے ، متلاشیان حق کو اللہ و رسول ۖ کے راستے پر گامزن کرنیوالے ،اولیاء اکرام کے نقش قدم پر چلنے والے ، معاشرے میں امن و محبت کو فروغ دینے والے ، تمام مذاہب و مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنیوالے، انسانیت کی بے لوث خدمت کرنیوالے، روحانی فیض کے حصول کیلئے عین الیقین کروانے والے ، وطن عزیز پاکستان کے استحکام اور ترقی وخوشحالی کیلئے عملی کوششیں کرنیوالے ہمارے اس معاشرے میں اب بھی موجود ہیں لیکن ہم نے انہیں بے جا ”فتوئوں ”کی نظر کردیا ہے ۔۔۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں ، آج ہم اپنے خاوند کو ”ہاتھوں” میں کرنے یا بیوی پر” رعب ”جمانے ، بیرون ملک سفر، امتحانات میں پیپرز دئیے بغیر کامیابیاں لینے ، دنیاوی دولت حاصل کرنے چاہے وہ حرام طریقے سے ہی کیوں نا ہو،پرائزبانڈ نمبر لگوانے،قریبی رشتہ داروں سے دشمنیاں نبھانے ،سنگدل محبوب کو فوری قدموں میں لانے کے چکراور پتہ نہیں کیا کیا کرنے کی خواہش نے ہمیںایسے ”بنگالی بابوں”اور بے تُکے ”ضدی مرشدوںکی کشتی”میں سوار کردیاہے ،وہیں سے معاشرے میں بگاڑاور ایسے گھنائونے واقعات سامنے آرہے ہیں جیسا کہ گذشتہ دنوں سرگودھا میں رونما ہوا۔۔۔ایسے ”اڈے”بے شمار کھلے پڑے ہیں ، ہمارا میڈیا بڑھ چڑھ کر بہت سستے داموں ان ”آدم خور”قبیلوں کے اشتہار لگا کر معاشرے کی بہت بڑی برائی کی عملی ”معاونت ”کر رہا ہے۔
ہمیں نشاہدی کرنا ہوگی کہ کون سے ایسے آستانے ہیں جہاں ”پیری مریدی ”کا کھیل رچا کر”بنگالی بابے ”انسانیت اور ”روحانیت”کی تذلیل کررہے ہیں۔۔۔؟کیا ان کے ”آستانے”پر خالق و مالک اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب نبی کریم ۖ ، ازواج مطہرات ، اصحابہ اکرام ، اہل بیت ، آل رسول سمیت بزرگان دین کا ”فیض عام”بھی ہے۔۔۔؟کیا وہاں اللہ رسول ۖ کی کوئی بات بھی سننے کو ملتی ہے ۔۔۔؟یہاں ہمارے ”مولوی”حضرات کو بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا جو چند ”ٹکوں”کی خاطر ”بنگالی بابے ”کے ساری ساری رات قصیدے پڑتے رہتے ہیں ، اللہ رب العزت ہمیں صراط مستقیم نصیب فرما کر دائمیاستقامت عطا فرمائے (آمین)