تحریر: مصعب حبیب امام کعبہ الشیخ صالح بن محمدآل طالب اور سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیزآل الشیخ ایک بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ ان کی آمد پر گورنر خیبر پی کے اقبال ظفر جھگڑا، مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفورحیدری ودیگر نے معزز مہمانوں کا خیر مقدم کیا جبکہ ایئرپورٹ پہنچنے پر ان کا ”ریڈ کارپٹ” استقبال کیا گیا ۔امام کعبہ ، سعودی وزیر مذہبی امور اوروفد میں شامل دیگر اراکین خصوصی طیارہ کے ذریعہ پاکستان پہنچے۔ الشیخ صالح بن محمد کی قیادت میں وفد نے گذشتہ روز اضاخیل نوشہرہ پشاور میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے صد سالہ اجتماع میں شرکت کی اورامام کعبہ نے خطبہ جمعہ دیا۔خیبر پی کے سمیت ملک بھر سے آنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے امام کعبہ کی امامت میں نماز جمعہ کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاںامام حرم کی قیادت میں سعودی وفد شام کو اسلام آباد پہنچ گیا۔ امام کعبہ آج صدر، وزیر اعظم اور دیگر حکومتی و اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور مذہبی و سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کریں گے۔امام حرم کی اسلام آباد موجودگی کے دوران ان کا دورہ پارلیمنٹ بھی متوقع ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اس سلسلہ میں سعودی سفارت خانہ سے باضابطہ رابطہ کیا گیا ہے۔امام کعبہ ایک دن اسلام آباد میں گزارنے کے بعد 9اپریل کو لاہور آئیں گے ۔ اس موقع پروہ بادشاہی مسجد میں نماز ظہر یا عصر کی امامت کروائیں گے ۔اسی دن مرکزی جمعیت اہلحدیث کی طرف سے مرکز اہلحدیث راوی روڈ پر علماء کنونشن کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں تمام اہلحدیث جماعتوں سے تعلق رکھنے والے علماء کرام شریک ہوں گے۔ امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب مرکز اہلحدیث راوی روڈ بھی آئیں گے اور علماء کرام کے اس کنونشن سے خطاب کریں گے۔
امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب کی سعودی وزیر مذہبی امور اور دیگر اہم سعودی شخصیات کے ہمراہ آمد پر ہر پاکستانی کا دل خوشی سے سرشار ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے ہر مسلمان کے دل میں حرمین شریفین کا دلی احترام پایا جاتا ہے ۔خانہ کعبہ اور مسجد نبوی مسلمانوں کی عقیدتوں کے مرکز ہیں اس لئے جب بیت اللہ شریف یا مسجد نبوی کے آئمہ کرام میں سے کوئی پاکستان تشریف لاتے ہیںتو یہاں کے عوام میں خوشی و مسرت کے بے پایاں جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد کی قرأت کو دنیا بھر میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حج و عمرہ کی سعادت عطا کی اور وہ حرم مکی میںان کی تلاوت سن چکے ہیںوہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب وہ نمازوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو عازمین حج و عمرہ کے دلوں پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ الشیخ صالح بن محمدکا خاندان علماء ، حفاظ اور قضاة کے خاندان سے مشہور ہے۔انہوںنے ابتدائیہ اور ثانویہ کی تعلیم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مکمل کی۔اسی شہر کے ایک مدرسہ سے کم عمری میں ہی حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اور پھر قرأت سبعہ عشرہ کی تعلیم حاصل کی۔ شیخ صالح کو ناموراساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔ آپ کے اساتذہ میں ماہرتجوید وقرآن شیخ محمود عمر سکر، ماہر تجوید شیخ صابر حسن ابوسلیمان، شیخ عبدالحلیم صابر عبدالرزاق اور شیخ قاری عبدالمالک ابومحمد شامل ہیں۔حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد سال 1414ھ میں شیخ صالح نے ریاض کے شریعہ کالج میں داخلہ لیا۔یہاں سے بی اے کی تکمیل کے بعد ہائیر انسٹی چیوٹ آف جسٹس سے سال 1417ھ میں اے ایم کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے ملک میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ضرورت کے پیش نظر تین علماء دین کی برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کے لئے خصوصی منظوری دی تھی جن میں شیخ صالح بھی شامل تھے۔شیخ نے علم حدیث وفقہ ماہرین اور مشاھیر علماء ومشائخ سے حاصل کیا۔ ان کے اساتذہ میں ان کے والد محترم شیخ محمد بن ابراہیم بن محمد آل طالب،آپ کے دادا، شیخ ابراہیم بن محمد بن ناصر آل طالب،مفتی عام مملکت سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز، شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان، شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین اور مملکت سعودی عرب میں وزیراسلامی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ وغیرہ مشاھیر علماء شامل ہیں۔الشیخ صالح بن محمد نے سپریم کورٹ سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور تین برس وہاں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران انھوں نے شیخ عبدالعزیز بن ابراہیم القاسم اورطائف کورٹ کے چیف جسٹس شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز الفریان سے تربیت حاصل کی۔ اسی طرح آپ نے ضمانت اور نکاح وغیرہ امور سے متعلق کورٹ کے چیف جسٹس شیخ سعود المعجب سے بھی تربیت حاصل کی۔سال 1418ھ میں سعودی عرب کے تربہ علاقے میں قاضی مقرر ہوئے جہاں آپ نے دو برس تک خدمات انجام دیں، پھر سال 1420 ھ میں رابغ کے علاقے میں قاضی متعین ہوئے اور یہاں آپ نے دو برس چھ ماہ خدمات انجام دیں۔
بعدا زاں وہ مکہ مکرمہ کی سپریم کورٹ میں قاضی مقرر ہوئے اور ہنوز اسی عہدے پر موجود ہیں۔الشیخ صالح بن محمد آل طالب کو 28شعبان 1423ھ میں مسجد حرام میں امام مقرر کرنے کا شاہی فرمان جاری ہوا۔ نماز عصر ان کی پہلی نماز تھی جس کی انہوںنے امامت فرمائی۔ یہ رمضان المبارک کا پہلا دن تھا۔ اسی طرح 1430ھ کو الشیخ صالح مسجد حرام میں مدرس بھی مقرر ہوئے۔ انہوںنے سترہ برس کی عمر میں ہی ریاض شہر کے سویدی محلہ میں واقع مسجد علیاء آل شیخ سے امامت کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ سعودی عرب کے علاقہ رابغ میں جاری جمعیہ تحفیظ القرآن الکریم کے چیئرمین ہیں، اس کی بنیاد بھی انہوں نے ہی سال 1420 ھ میں رکھی تھی۔ اسی طرح آپ مکہ مکرمہ کی منشیات کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔آپ وزارت صحت کے زیرنگرانی میڈیکل سوسائٹی کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ الشیخ مملکت سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے مختلف خیراتی اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور رکن بھی ہیں۔امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد کی دعوتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ وہ ایک متحرک داعی اور مربی ہیں۔ آپ نے سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں دینی اداروں کے قیام کی کوشش کی، رابغ شہر میں آپ کی کوششوں کے نتیجے میں جمعیہ تحفیظ القرآن کا آغاز ہوا تھا ۔ یہ ادارہ آج مختلف شعبوں پر مشتمل ہے جہاں جالیات کی تربیت سمیت الافتاء و قضاة کے شعبے عالمی سطح پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔الشیخ نے سال 1415 ھ میں امریکہ کا دعوتی سفر کیا۔
سال 1422ھ میں ہالینڈ کے شہر لاہائی میں منعقدہ بین الاقوامی عدالت کے زیرنگرانی تجارتی استحکام سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے زیرسرپرستی منعقدہ الیکٹرانک تجارت سے متعلق منعقدہ کانفرنس میں شرکت ہوئے۔ اسی طرح قانون سے متعلق متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بھی وہ شرکت کر چکے ہیں۔ انہوںنے اصلاحی اور تربیتی موضوعات پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی ایک کتاب ”تہذیب وثقافت کی اشاعت میں مسجدحرام کا کردار” عربی زبان میں منظرعام پر آئی۔اسی طرح انہوںنے ایم اے میں ”احکام حدیث العہد بالاسلام ” کے عنوان پر مقالہ تحریر کیا تاہم اس کی طباعت نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ شیخ نے اجتہاد، تقلید اور نفاق جیسے موضوعات پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔
بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ۖ کے آئمہ کرام کو مسلم امہ میں اتحادویگانگت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی شخصیت دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے غیر متنازعہ ہے اور وہ صرف بیت اللہ شریف میں آنے والے مسلمانوں کے ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کے امام ہیں۔ الشیخ صالح اپنی سادہ مگر پر کیف آواز میں تلاوت قرآن کی وجہ سے اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن پاک کو بنا سنوار کر خوش الحانی کے ساتھ پڑھا جائے۔ حرمین شریفین کے آئمہ کرام نے مسلمانوں کو ہمیشہ فرقہ واریت کے خاتمہ اور امت واحدہ بننے کی ترغیب دی ہے۔ مختلف مسلم ملکوں میںا ن کے دوروں سے فرقہ واریت میں تشدد اور قتل و غارت گری کے فتنہ کو ختم کرنے میں بھی یقینی طور پر مددملتی ہے اور گمراہی کا شکار نوجوانوں کو بھی پتہ چلتا ہے کہ اصل دین یہی ہے جس کی تعلیم آئمہ حرمین دے رہے ہیں۔ برادر اسلامی ملک کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ جہاںدنیا بھر میں دعوت دین کو پھیلانے اور دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کرتا ہے وہیں او آئی سی اور رابطہ عالم اسلامی جیسے پلیٹ فارموں کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحادویکجہتی کی فضا پیدا کرنے میں بھی اس نے ہمیشہ بھرپور کردار اداکیا ہے۔پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں، اس لئے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو، سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثار و قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔ پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتداء سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ انہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف دونوں ملکوں کو قریب کرنے کیلئے ہی نہیں پوری اْمت مسلمہ کے اتحاد کیلئے زبردست کوششیں کی، جس پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سبھی مسلم حکمرانوں کو ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر کھل کرپاکستان کے موقف کی تائید و حمایت کی ہے۔ بابائے قوم بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، جہاں غاصب بھارت نے آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل نے مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی۔ دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا اور روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردار سے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے اور اس کے لیے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب ایسے موقع پر پاکستان تشریف لارہے ہیں جب سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کی تصدیق کی گئی ہے ۔ پاکستان نے اس حوالہ سے واضح اور ددٹوک موقف اپنایا ہے کہ پاکستان مسلم ممالک کے تنازعات میں فریق نہیں بنے گا۔ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی طرف سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اراکین کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا یہ اتحاد کسی ملک کیخلاف نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی فرقے کی حمایت کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس اتحاد کے قیام کا واضح مقصد مسلم ملکوں کا باہم مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف کسی ملک کے مفادات کیخلاف کام نہیں کریں گے ۔وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، طارق فاطمی اور تہمینہ جنجوعہ کے بعد اب تو پاک فوج کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کی اجازت دینا ریاست کا فیصلہ ہے۔ پاکستان کے فوجی دستے سعودی عرب سے باہر نہیں جائیں گے۔میں سمجھتاہوں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی عرب جانے کی اجازت دینے کو ریاست کا فیصلہ قرار دینے سے ہر قسم کے ابہام اب ختم ہو جانے چاہئیں۔ دہشت گردی کے جس ناسور کا پاکستان کو سامنا ہے اسی کا سعودی عرب، ترکی اور دوسرے مسلمان ملکوں کو بھی سامنا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت ساٹھ سے زائد مسلم ملک ہیں۔خلیج اور مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ مسلمان ملکوں کے پاس تیل و معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ ان کے پاس افرادی قوت اور زرمبادلہ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ داخلی طور پر امن و امان کی بربادی کی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ہر جگہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری اور لسانیت کی بنیاد پر تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ میدانوں میں شکست کھانے والے مسلم ملکوں میںباہمی لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کی سازشوںمیں کامیاب نظر آتے ہیں۔عراق، شام اور مصرسمیت دیگر عرب ملکوں کے حالات تشویشناک ہیں تو پاکستان میں بھی قتل و غارت گری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔دشمنان اسلام بہت دیر سے کوششیں کر رہے تھے کہ کسی طرح امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کو بھی اندرونی خلفشار اور انتشار کی کیفیت سے دوچار کیاجائے۔وہ اپنے اس مقصد میں ناکامی سے دوچار تھے’تاہم یمن میں بغاوت کھڑی کر کے یہاں کے امن کو بھی دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ حوثی باغی مکہ مکرمہ پر میزائل حملہ کی ناکام کوشش کر چکے ‘وہ حرمین شریفین پر قبضہ کی کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں اور سعودی سرحد کے قریب میزائل و دیگر جدید اسلحہ جمع کر کے سرزمین حرمین کیلئے خطرات کھڑے کئے جارہے ہیں۔ سعودی عرب میں مسلمانوں کے دو حرم بیت اللہ اور مسجد نبوی ہیں۔ یہ خطہ پوری مسلم امہ کی محبتوں و عقیدت کا مرکز ہے اس لئے سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اپنے گھر بیت اللہ کی حفاظت اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لی ہے۔ وہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کو چھوٹے پرندوں کے ذریعہ نیست و نابود کرسکتا ہے تو آج بھی صلیبیوں ویہودیوں کی پشت پناہی پر اس مقدس سرزمین کیخلاف سازشیں کرنے والوں کو ایک لمحے میں تباہ وبرباد کر سکتا ہے۔تاہم اصل امتحان تو دور حاضر میں موجود مسلمانوں کا ہے کہ وہ اس موقع پر کیا کردار ادا کرتے ہیں۔
۔بہرحال بیرونی قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر مسلمان ملکوں میں نہتے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانے والے اسلام کی خدمت نہیں کر رہے بلکہ یہ درحقیقت انہی اسلام دشمن طاقتوں کے مذموم ایجنڈوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔دشمنان اسلام بخوبی سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں میدانوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے اسلئے منظم سازش کے تحت انہیں ان کے اپنے ملکوں میں ہی الجھادیا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے اربوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔مسلمان ملکوں کو جس قدر نقصان انہیں درپیش اندرونی فتنوں سے پہنچ رہا ہے اتنا دشمن ملکوں نے بھی نہیں پہنچایا ۔ اس لئے تکفیر، خارجیت اور دہشت گردی کے اس فتنہ کی بیخ کنی کیلئے پوری مسلم امہ کو متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہو گا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں مسلمان ملکوں کو نقصانات سے دوچار کرنے کیلئے باہم متحد ہیں لیکن مسلم ممالک باہم تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں بھی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو نا ہو گا۔جس طرح مسلمان ملکوں نے مل کر اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دیا ہے اسی طرح اپنے معاشی نظام بھی تشکیل دینے ہوں گے۔ مسلمانوں کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی اسلامی عدالت انصاف بنائیں اور باہمی تنازعات کے حل کیلئے اغیا رکی طرف دیکھنے کی بجائے اس فورم کے ذریعہ مسلمان ملکوں کو درپیش مسائل مل بیٹھ کر حل کئے جائیں۔ دشمن ملکوں سے اپنے مسائل کے حل کی توقع رکھنا فضول ہے۔مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔امت مسلمہ کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ جب تک مسلمان ملک بیرونی سازشوں کے مقابلہ کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے نہیں ہوں گے دشمن کی سازشوں پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ اسلامی ملک دہشت گردی ختم کرنے کیلئے اکٹھے ہوں اب جب اسلامی فوجی اتحاد بن گیا ہے جس میں شامل ملکوں کی تعداد اکتالیس ہو گئی ہے تو اب بعض حلقے اس کیخلاف شکوک و شبہات پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں’ یہ رویہ درست نہیں ہے۔
Pakistan and Saudi Arabia
ہمیں تو خوشی ہونی چاہیے کہ اس اتحاد کے قیام سے پاکستان کا موقف مضبوط ہوا ہے تاہم صورتحال یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور سعودی عرب کے واضح موقف کے باوجود تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے بعض رہنمائوں کی جانب سے اسلامی فوجی اتحاد کے حوالہ سے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کی جارہی ہے جسے کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہیں اس فیصلہ کو محض حکومت کی مخالفت کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ اسے قومی مفاد میں کیا گیا بہترین فیصلہ سمجھتے ہوئے اس کی تائید کرنی چاہیے۔ جب جنرل (ر) راحیل شریف، حکومت پاکستان ، آئی ایس پی آر کے ترجمان اور سعودی سفیر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اسلامی فوجی اتحاد کے کوئی خفیہ مقاصد نہیں ہیں تو پھر محض حکومتی مخالفت میں افواہیں پھیلانا اور غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب اور سعودی وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ کی قیادت میں سعودی وفد کے اس دورہ کے وطن عزیز پاکستان میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کیلئے ان شاء اللہ دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ چند سال قبل امام کعبہ الشیخ عبدلرحمن السدیس اور دو سال قبل ڈاکٹر خالد الغامدی پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے توپاکستانی قوم نے ان کا مثالی استقبال کیا، ان کی وطن عزیز آمد کو پاکستانی قوم کے لئے ایک بڑا اعزاز قرار دیا اور ان کی عزت و تکریم میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔اب بھی پوری پاکستانی قوم امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب ، سعودی مذہبی وزیراور وفد کے دیگر اراکین کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتی ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستی، محبت اور عقیدت کے یہ لازوال رشتے ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے۔ دشمنان اسلام کی جانب سے برادر اسلامی ملکوں کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی مذموم سازشیں ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوں گی۔