تحریر : محمد ریاض پرنس ملک میں بڑھتی ہوئی اغواء کاری کے پیش نظر بہت سے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جن کے خلاف کاروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہمارے اداروں نے ان کے خلاف بروقت کاروائی نہ کی تو ہم بہت سے ملکی معماروں سے محروم ہو جائیں گے ۔کیونکہ ہر روز معصوم بچے اپنے والدین سے دور ہوتے جا رہئے ہیں۔۔ اس وقت ملک کوظالم درندہ صفت انسانوں نے گھیراہوا ہے جن کو انسان کہنا بھی جرم لگتا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو معصوم بچوں کو اغوا ء کر کے ان سے بہت سے کام کرواتے ہیں ۔ ملک کے مختلف علاقوں سے بچوں کے اغواء ہونے کی خبریں مل رہی ہیں ۔۔اس وقت ملک میں بچوں کو اغوا ء کرنے والے بہت سے گروہ کام کررہے ہیں ۔ایک ایسا گروہ ہے جو معصوم سی جانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اغواء کر کے لے جاتے ہیں ۔ اور ان سے بھیک جیسے کام کروانے کے لئے ان کو معذور اور مفلوج بناکر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ ان کی ٹانگوں کو ہاتھوں کو توڑ دیتے ہیں یا پھر ان کی زبان کو کاٹ کر معذور بنا کر مختلف علاقوں میں اپنی زیر نگرانی کام کرواتے ہیں ۔کچھ ایسے گروہ ہیں جو بچوں کو اغوا ء کر کے لے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے والدین کو بلیک میل کرکے ان سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں ۔اگر ان کو رقم نہ دی جائے تو وہ بچوں کو مار دیتے ہیں ۔اس بناء پر وہ والدین کو طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں اور اپنے جال میں پھنسا کر بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔
بچوں کے اغواء برائے تاوان کا مسلہ اس وقت بہت عروج پر ہے ۔والدین بھی مجبور ہوتے ہیں اپنے بچوںکو ان درندہ صفت انسانوں سے بچانے کیلئے ان کی بات کو مان لیتے ہیںاور ان کے خلاف رپورٹ بھی نہیں کرتے ۔ اور اپنی ننھی سی جانوں کو بچا نے کے لئے بھاری رقم دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسے ظالم گروہ کام کر رہے ہیں۔جن کی ٹیمیں مختلف علاقوں میں ایسے بچوں کو تلاش کرتی ہیں جن کے والدین بہت ہی امیر ہوتے ہیں ۔ان کے بچوں کو اغواء برائے تاوان کے ذریعے ان کو بلیک میل کرتے ہیں اور کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں ۔کچھ ایسے گروہ بھی ہیں جو مختلف علاقوں میں ان بچوں کو تلاش کرتے ہیں ۔جو ضرورت مند ہوں ان کو کسی نہ کسی چیز کا لالچ دے کر اپنے جال میں پھنسا کر لے جاتے ہیں اور ان کو نشہ آور اشیا ء پر لگا دیتے ہیں ۔جب وہ نشہ پر لگ جاتے ہیں اور اس کے بغیر رہ نہیں پاتے تو ان سے مختلف کام کرواتے ہیں۔ مثلاً چوری ،جیب کتر،وغیرہ ۔ کچھ ایسے گروہ بھی ہیں جو بچوں کو اپنے جال میں پھنسا کر لے جاتے ہیں ۔ اور ان کو کسی دوسرے ملک بیچ دیتے ہیں۔اسی طرح کے اور بھی گروہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح بچوں کو اغوا ء کر تے ہیں اور ان کے جسم سے مختلف قیمتی اعضاء نکال کر فروخت کر کے بہت سے روپے کماتے ہیں۔اور معصوم بچوں کو ساری عمر کے لئے اپاج بنا دیتے ہیں۔اسی طرح کچھ ایسے گروہ بھی ہیں جو صرف لڑکیوں کو اغوا ء کر تے ہیں اور ان کو کسی دوسرے ملک یا پھر دھندے والے لوگوں کو اچھے داموں سیل کر دیتے ہیں۔ایسے کام کرنے والے اور بھی بہت سے گروہ ہیں جو ملک کے اندر معصوم جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے ملک کے مختلف علاقوں سے تقریباً 900بچے اغوا ء ہو چکے ہیں۔ان میں سے کچھ بچے تو اپنے والدین کو واپس مل چکے ہیں ۔مگر کچھ ایسے والدین ہیں جنہوں نے کوئی بھی رپورٹ درج نہیں کروائی ۔وہ اس ڈر سے کہ کہیں اغواء کاران کے بچوں کو مار نہ دیں۔ جن کی ابھی تک کوئی خبر نہیں ۔اور نہ ہی کوئی ادارہ ان کو تلاش کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ان کی کوئی نہیں سن رہا ۔ اگر وہ پولیس اسٹیشن میں جاتے ہیں تو ان کو تسلی دے کر جانے کو کہا جاتا ہے ۔والدین اپنے بچوں کو کہاں سے تلاش کریں ۔ کوئی ہے جو ان کو ان کے بچوں سے ملوا سکے ۔یا پھر ان کے بچوں کو تلاش کر سکے ۔سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے ۔اور ان نو سو بچوں کے ساتھ یہ ظالم لوگ پتہ نہیں کیا کچھ کرنے والے ہیں۔
ان کی جانیں خطرے میں ہیں۔یہ بچے پاکستان کا سرمایہ ہیں مگر آج ان کی زندگیاں غیر محفوظ ہیں ۔یہ درندہ صفت انسان ان کی جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور ان کے اعضاء بیچ کر اپنے پیٹ بھر رہے ہیں ۔ان سے برے کام کروا کر بھیک منگوا کر جیبیں کٹوا کر ان کو معاشرہ کا برا انسان بنا رہے ہیں ۔ گزشتہ روزسپریم کورٹ کے جج جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس کیس کو اٹھایا ہے ۔تاکہ ان والدین کو ان کے بچے مل سکیں اور اغوا ء کاروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہو سکے۔اس لئے ان کے خلاف کریک ڈون کرنے کاحکم بھی صادر فرمایا ہے ۔ اداروں اور پولیس والوں کو والدین کی رپورٹ درج کرنے اور ان کے خلاف تحقیقات کرنے کے لئے والدین کا ساتھ دینے کے لئے بھی حکم فرمایا ہے۔یہ ایک اچھا اقدام ہے اس کی بدولت بچے اپنے والدین سے دوبارہ مل سکیں گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک سے ایسے لوگوں کا خاتمہ کیسے کیا جائے ۔ان لوگوں کی نشاندہی کیسے کی جائے ۔ایسے لوگ ہم میں سے ہی ہیں مگر ان کے اندر سے انسانیت اور بچوں سے محبت ختم ہو چکی ہے ۔ ان کے اندر لالچ اور شیطان نے پتہ نہیں کیا کچھ بھر رکھا ہے ۔جو معصوم جانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ایسے لوگوں کے کیا اپنے بچے نہیں ہیں ۔اگر ہیں بھی تو ان کے اپنے نہیں ہوں گے ۔مگر یہ بچے کب تک اپنے والدین سے بچھٹرتے رہیں گے اور والدین اپنے بچوں سے جدا ہوتے رہیں گے ۔ایسے گروہ اور انسانوں کے بارے میں ہم کو خود ہی نشاندہی کرنی ہو گی تاکہ ان کو پکڑ ا جا سکے۔
ہم کو چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کی نگرانی خود کریں اور ان سے ملنے والے تمام دوستوں کی خبر رکھیں تاکہ ایسا کوئی بڑا مسلہ پید ا نہ ہو سکے۔