تحریر : عبدالجبار خان اکثر ہمارے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم موٹر سائیکل پر جا رہے ہو ںاور ہمارے موٹر سائیکل کی لائٹ دن کے وقت جل رہی ہو تو راستے میں تقریبا ً ہر شخص لا ئٹ بند کرنے کا اشارہ ضرور کرے گا ایسی مثالیں ہمارے نیک لوگ اور تبلغ کا کام کرنے والے بھی دیتے ہیں کہ آپ اپنے مسلمان بھائی کا اتنا نقصان برداشت نہیں کر سکتے پر جب وہ نماز جیسے اہم فرض سے غافل ہوتا ہے تو آپ اس کو کیوں نہیں کہتے کہ ایک مسلمان بھائی کا نقصان ہو رہا ہے یہ با ت تو ہم نے کئی مر تبہ سنی ہو گی میرے ایک نہا یت ہی پیارے دوست جب بھی مو ٹر سائیکل چلاتے ہیں تو مو ٹر سائیکل کی لا ئٹ دن کی اوقات میں بند نہیں کرتے میں جب ان سے دریافت کیا کہ آپ ایسا کیو ں کر تے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ میں دیکھنا چاہتا ہو ں کہ قوم جاگ رہی ہے یا سورہی ہے پر ہماری قوم بتی آن ہو نے پر جا گتی ہیجب ہمارے اردگرد اور بھی معاملات ہیں مسا ئل ہیں جن کے با رے میں ہم چھپ سادھ کر سو جا تے ہیں یہ بات تو موٹر سا ئیکل کی بتی کے جلنے کی ہو ئی کہ ہم ایک دوسرے کا کتنا احساس کر تے ہیں ایک چھو ٹی سی بات پر اپنے معاشرے کے لوگ کی توجہ کرواتے ہیں بلکہ ہم تو یہ سنتے بھی ہیں اور شاید کبھی کسی سے کہا بھی دیا ہو گا کہ ارے دن ہے رات نہیں تو سو تو نہیں رہا شاید ہم اور ایسا کہنے والے اپنے ضمیر کی آواز پر بولتے ہیں جو صرف بتی جلنے پر جاگتا ہو گا۔
اب آپ اور ہم اپنے ضمیر کی سنتے ہیں پر عمل نہیں کر تے ایسا بھی ہو تا ہے پر کسی جگہ ضمیر بھی کمپرومائزکر جا تا ہے اب اگر معاشرے کے مسائل کو دیکھیں اور معاشرے کو دیکھیں تو ہمیں دو ہی قسم کے لو گ نظر آتے ہیں ایک اچھے اور ایک برے اور ضمیر کے اعتبارے سے بھی ایسے ہی دو ہیں ایک زندہ اور دوسرے مردہ ضمیرپر درمیان والے بھی ہوتے ہیں میں یہ سوچ سوچ کر پر یشان تھا اچھے اور برے لوگ زندہ ضمیر اور مر دہ ضمیر تو ہو سکتے ہیں پر میرا دل کہتا تھا درمیان والے بھی ہوتے ہیں میں اپنی یہ پر یشانی لے کر ایک نیک انسان کے پاس گیا کہ مجھے اچھے برے اور زندہ مردہ ضمیر والوں کا پتہ ہے پر مجھے درمیان والوں کا بتا ئیں ایسے بھی ہو تے ہیں جو نہ ادھر ہو نہ ادھر درمیان میں لٹکے ہوں انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو تا جیسے جنت اور دوزخ ہے جنت اچھے اور دوزخ برے کے لئے پر اس کے درمیان کو ئی نہیں رہے سکتا میں کئی دن اپنے اس سوال کو لے کر اپنی ہی سوچوں میں ڈوبا رہا میں درمیان والے لوگوں کو تلاش کرتا رہا ہے اور وہ بھی ضمیر کے اعتبار سے زندہ مردہ کے درمیان والے ایک دن میری ملاقات ایک درویش بزرگ سے ایک چا ئے کے ہو ٹل پر ہو گئی وہ ما نگتے ما نگتے جب میرے پاس آیا میں اس سے کہا آپ چا ئے پییں گے۔
انہوں نے میر ی آفر قبول کر لی وہ میر ے سا منے والی بنچ پر براجمان ہو گے ان سے حال احوال شروع کر دیا میں ان سے کہا آپ ایک ایک شہر گھومتے ہیں ایک ایک جگہ جا تے ہیں کبھی آپ کو ایسے لو گ ملے ہیں جن کے ضمیر نہ زندہ ہو ں اور نہ مردہ وہ درمیان والے ہوں وہ میری بات پر قہقہ لگا کر ہنسے اور بولے مجھے تو سارے ہی ایسے لگتے ہیں میں نے کہا بابا یہ کیسے ہو سکتا جو زندہ ضمیر ہے وہ نیک ہے عبادت کرتا رشوت نہیں کھاتا حلال روز ی کماتا ہے جو مردہ ضمیر ہے وہ رشوت کھا تا ملاوٹ کر تا ہے چوری ڈاکہ مارتا ہے یتیم کا حق مارتا ہے وہ تو مردہ ضمیر ہے پر درمیان والا ہے تودرمیان والا کیسے ہو سکتا ہے یہ تو ممکن ہی نہیں بزرگ نے کہا کہ کبھی تو کسی ایسے دوست یا جانے والے کی گوشت کی دوکان سے گوشت لینے گیا ہو اور اس نے تمھارے ساتھ بھلائی کر تے ہو ئے اشارے سے کہا ہو کہ گوشت تیرے مطلب کا نہیں تو خامو شی سے وہاں سے چلے جا تے ہو پر اس دوکان پر گاہکوں کا رش تھا وہ سب اس سے گوشت خرید رہے تھے پر تجھے اشارہ مل گیا تو چلا گیا اب اس قصائی نے پتہ نہیں مردہ جانور کا گوشت فروخت کر رہا تھا یا بیمار کا اس نے تجھے تو بچا لیا۔
اب وہ قصائی دوسرے لو گوں کو تو وہ گندہ اور خراب گوشت فروخت کر دیا وہ کھا بھی گئے قصائی تو ہو امردہ ضمیر تو اپنے آپ کوزندہ ضمیر کہتا ہو گا نہ پھر اس وقت تیرا ضمیر کدھر تھا وہ مردہ تھا یا زندہ تھا اب تو مردہ تو تسلیم کرے گا ہی نہیں تو وہ قصائی اچھا اور زندہ ضمیر بھی نہیں تو اب کون ہو ا درمیان والا ۔تو ہو ا نہ پتر ؟بزرگ نے مجھ سے کہا اس نے کہا اور سنے گا اور بندے دیکھے گا اس نے کہا جب تو کسی دفتر بینک جاتا ہو گا وہا ں پر لو گ اپنے کا م کے لئے لائین میں لگے ہو تے ہیں اندر بیٹھا افسربھی بڑا ایماندار ہے رشوت کا ایک پھورا بھی نہیں لیتا بہت سخت بند ہے اب تیر ا یار ہے تیر ا جا ننے والا ہے تو اپنے نام لے کر یا پرچی بھیج کر اندر چلا جاتا ہے تیر ا کام تھا وہ بھی ہو جاتا ہے تو اس سے چاہ وی پی لتیا ہے پر پتر اس لائین کا کیا بنا جس میں بچارے غریب صبح سے گرمی میں کھڑے تھے۔
اب تیرا اور تیرے افسر یار کا زندہ ضمیر ہو ا یا لا ئین والوں کا وہ رشوت نہیں کھاتا اس کا ضمیر بھی زندہ ہو ا توبھی رشوت نہیں دیتا تیر ا وی ضمیر زندہ پر یہ کیا تھا باہر جو کھڑے تھے ان کا قصور کیا تھا چلو کام کر ا کے جلد نکل پڑنا تھا تو نے تو چا ہ پی کے ان غریبوں کے حصے کا ٹائم ہی کھا گیا بابے نے کہا ایسے ہر دوکاند ار کے پاس چلا جا تیر ا جاننے والا ہے تو بس سب خیر یہ ایک نمبر سودہ تیرے لئے دو نمبر میر ے جیسے بندے کے لئے چنگے پھل تے سبزی وی تیرے واسطے تے گلی سڑی میرے واسطے ڈاکٹر وی تیرے بچے دا علاج چنگی دوائی نال کرئے گا تے میرے بچے نو پانی والے لگائے گا استاد وی تیرے بچے نو توجہ دے گا میر ا بچہ کلاس دے وچ سب تو آخر ایچ بیٹھے گا یہاں تو ہر دوسرا بند ہ درمیان والا ہے پتر اب تجھے اور کیا کیا بتاؤ ں اب تو خود تلاش کیا کر درمیان والے تجھے کدھر کد ھر ملتے ہیں وہ بابا تو کچھ دیر بعدوہاں سے اٹھ کر چلا گیا پر میرے لئے اور اس معاشرے کے لئے ایک سوال چھوڑگیا کہ درمیان والوں کو تلاش کرو کہیں وہ تم خود تو نہیں شاید ان ایسے اہم موقعوں کے لئے ہی فر مایا گیا ہو گا جو تم اپنے لئے پسند نہیں کر تے ہو وہ دوسروں کے لئے کیوں پسند کر تے ہو۔