تحریر : ایم آر ملک اختیاراتی عدم توازن کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے تمام قدر انسانی محنت سے جنم لیتی ہے مگر تخت لاہور میں طلباء کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے جبار شاہین جیسے پنجاب حکومت کے چہیتوں اور لاڈلوں کے لہجوں میں صرف حکمران طبقہ کی طرف سے سونپے گئے اُتار چڑھائو نظر آتے ہیں ،ذہنوں میں بوئے سلطانی سمائی ہوئی ہے ،اقتدار اور اختیارات کا خمار بد عنوانی اور بد دیانتی کے رستے پر سر پٹ دوڑائے جارہا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ شریفوں کے سیکریٹری تعلیم پنجاب جبار شاہین نے پنجاب ایگزامینیشن بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات میں پہلی پانچ پوزیشنیں اپنے ادارہ تھل انٹر کالج اینڈ پبلک سکول کے نام کر لیں تعلیم اور صحت کے شعبے عرصہ دراز سے قتل گاہیں بن چکیں ۔میرٹ کو طاقت سے چھینا جارہا ہے کہیں یہ طاقت پیپر مارکنگ میں دولت سے ضمیر خرید رہی ہے اور کہیں ضمیر سے عاری اعلیٰ عہدوں پر مسلط بیوروکریسی ناجائز اختیارات کے جبر کے زور پر اپنے نام کرتی نظر آتی ہے۔
”تحریک انصاف ایگزیکٹو کمیٹی ضلع خوشاب کے ممبر ملک اظہر حیات گنجیال نے اپنی رہائش گاہ گنجیال ہائوس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تعلیمی میدان کی دنیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو آج بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ پنجاب بھر کے سکولز میں کہیں بھی ایک لائق اور ذہین بچہ بھی پانچویں کلاس کے سالانہ امتحان میں نہیں نکلا جو اپنی قابلیت و محنت کے نتیجہ کے ثمر سے استفادہ کا حصول کر کے پنجاب میں تیسری یاپا نچویں پوزیشن لے کر اپنا ، والدین اور سکول کا نام روشن کر سکتا ہو۔ لیکن سیکریٹری ایجوکیشن پنجاب عبدالجبار شاہین نے ایجوکیشن سیکٹرپر اپنی اجارہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اور پانچویں جماعت کے پیپرز میں پھرتی کا مظاہرہ کر کے ہیرا پھیری سے کام لے کر اپنے ذاتی سکول کو پہلی پانچ پوزیشنوں دلانے اور لاکھوں روپے وظائف کی مد میں مفادات کا حصول کرنے میں کامیاب ٹھہر گئے لیکن ایک بات اٹل ہے کہ روز محشر اللہ کریم کی عدالت میں حقوق العباد کا کڑا حساب و کتاب لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بیورو کریسی کو نوازنے کی پالیسی کو یکسر مسترد کر کے سیکریٹری تعلیم عبدالجبار شاہین کا پانچویں کے سالانہ امتحان میں ٹیکنیکل طریقے سے پرائمری کے نتائج میں ہیرا پھیری کرنے اور جعل سازی کا فی الفور نوٹس لیں اور فوری طور پر امتحان میں میرٹ پر آنے والے طلباء کا سراغ لگوائیں۔ اور جلد پوزیشن ہولڈرز طلباء اور معاملہ پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کرائیں۔ نیز سیکریٹری موصوف کو فوری طور پر فرائض منصبی سے ہٹا کر دیانتدار سیکریٹری کی تعیناتی عمل میں لائی جائے”عرصہ پہلے میں نے اپنے شہر میں ایک نو دولتیئے کے نالائق بیٹے کو پہلی پوزیشن کے زینے پر دیکھا تو شہرمیں آوازیں اُٹھنے لگیں کہ موصوف نے دولت کے بل بوتے پر پوزیشن خریدی ہے اور اُسی روز میں نے ایک غریب دہقاں کے بیٹے کو روتے دیکھا تھا جو میرٹ پر ہوتے ہوئے بھی دولت سے ہار گیا تھا میرے کانوں میں شہر میں گونجنے والی آوازوں کا شور تیز ہونے لگا کہ دولت اور اقتدار کیسے میرٹ چھین لیتے ہیں مجھے ڈاکٹر خیال امروہوی کا یہ قطعہ یاد آیا کہ
دیار ِ مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے اور اس خیال سے میں پر سمیٹے بیٹھا ہوں اُڑان دیکھ کے وہ پر خرید لیتی ہے اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے
پنجاب جہاں اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر پٹواریوں اور اساتذہ کے جلسوں میں گونجنے والی آواز خدمت کے اعلیٰ معیار ،گڈ گورننس اور بدلا ہے پنجاب کی شکل میں کانوں کے پردے پھاڑتی ہے وہاں تعلیم کے میدان میں حق دار اورذہین طلبا کا میرٹ پہلی پانچ پوزیشنیں ایک منظور نظر ،جی حضوریا صوبائی سیکریٹری تعلیم اپنی ایک پرائیویٹ تعلیمی ”تجارت گاہ ”کی پیشانی پر لکھ کر پڑھے لکھے پنجاب کے نعرے کو عملی جامہ پہنا چکا ہے یہ خادم اعلیٰ کے تعلیمی وژن کا نتیجہ ہے کہ لاہور جہاں جنوبی پنجاب کاسارا بجٹ جھونکا جارہا ہے اس بار پرائمری کے نتائج میں آخری نمبر پر ہے منظور نظر کاروباری افراد کو پیف کے تحت رواں اور معیاری سرکاری ادارے کمائی کیلئے ریوڑیوں کی طرح بانٹے جارہے ہیں جہاں غریب اور متوسط طبقہ کی قلیل آمدنی تعلیم خریدنے کی سکت اور بچے عصر حاضر کے درکار علم سے محروم ہوتے جارہے ہیں 73فیصد غریب بچوں کی تعلیم کی فراہمی کے ذمہ دار سرکاری تعلیمی اداروں کو دانستہ پسماندہ رکھا جارہا ہے تاکہ نجی شعبہ کے تعلیمی ادارے مقابلے کی دوڑ میں آگے نظر آئیں اور لوگوں کا رحجان نجی سکولنگ سسٹم کی طرف ہوتاجائے جبکہ سرکاری اداروں کی ناقص کار کردگی کی بنا پر اُنہیں پیف کی دسترس میں دیکر منظور ِ نظر کاروباری افراد کے حوالے کرنے کا جواز پیدا ہو۔سرکاری تعلیمی اداروں کی سوداگری ااقربا پروری کی بد ترین مثال ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیف کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں میں طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو رٹا بازی اور مقابلہ بازی کی بیمار ذہنیت کے علاوہ کچھ نہیں دیا جارہا پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کی سرپرستی میں چلنے والی ”تجارت گاہوں ”میں نونہالان وطن کو نسل انسانی کا اثاثہ بنانے کے بجائے فیس اور پیسہ کمانے کاذریعہ سمجھنے کی نفسیات ان اداروں میں مستقبل کی نسل کو شعور ،انسانی جذبوں اور حب الوطنی کی سوچ کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سیلز مین بنایا جارہا ہے نظام ِ تعلیم کو مفلوج کرنے والوں کی نام نہاد تعلیمی اصلاحات ،ری سٹرکچرنگ پالیسیاں محض دکھاوا ہیں وطن عزیز میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے جس میں پنجاب کا حصہ 65 فیصد ہے۔
کرپٹ عناصر اداروں کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں قدم قدم پر بکھری کرپشن کی یہ داستانیں ایسے افراد کے ہاتھوں رقم ہو رہی ہیں جن کی حرص ،ہوس اور ذاتی مفادات حب الوطنی کا قتل کر رہے ہیں قانون اور ریاست کے ادارے خاموشی سے اداروں کی تباہی کے مناظر دیکھ رہے ہیں جہاں وفاقی وزارتیں ،کارپوریشنز ،اور دیگر حکومتی ادارے 12کھرب 56ارب روپے کی سالانہ کرپشن کریں ،جہاں سالانہ قومی بجٹ کا 31.36فیصد کرپشن کی نذر ہوجائے ،جہاں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ایک سال میں 55ارب کرپشن کا پیٹ نگل جائے ،اسمبلی میں بیٹھے معزز اراکین پارلیمنٹ 61لاکھ اُڑا دیں ،جہاں وزارت تجارت میں 3ارب35کروڑ کی بے قاعدگی ہو ،کابینہ ڈویژن 36ارب 32کروڑروپے سالانہ اُڑا دے ،کیپیٹل ایڈ منسٹریشن ڈیویلپمنٹ29کروڑ روپے کی کثیر رقم کا کوئی حساب نہ ملے ،اعلیٰ تعلیمی کمیشن میں 33کروڑ اور وزارت صحت میں 64کروڑ کرپٹ مافیا اُڑا کر حساب تک نہ دے وہاں کونسی گڈ گورننس کا راگ الاپا جائے۔