تحریر : محمد عرفان چودھری ایک دن پولیس والے سے ملاقات ہوئی اُس سے لوگوں میں پولیس کے خلاف پائی جانے والی نفرت کے متعلق بات ہوئی پولیس والے نے روداد سناتے ہوئے بتایا کہ بارہ گھنٹے نوکری کرنے کے بعد اتنی ہوش ہی نہیں رہتی کے کسی سے رشوت طلب کرنے کے لئے اُس پر وردی کا رعب جمایا جا سکے سارا دن کڑکتی دھوپ میں سرکاری افسروں کے گھروں کے باہر ڈیوٹی کرتے ہیں جہاں پر ہر وقت جان کے لالے پڑے ہوتے ہیں اسی طرح چوبیس گھنٹے تیار رہنا پڑتا ہے کہ نا جانے کب ڈیوٹی پر بلا لیا جائے ، ہم پولیس والے ہر وقت اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر عوام کی حفاظت کرتے ہیں مگر چند ایک رشوت خور اور کرپٹ پولیس والوں کی وجہ سے ساری پولیس فورس بدنام ہو چکی ہے ہمارے بھی سینے میں دل ہے ہم بھی ہنسنا چاہتے ہیں لوگوں کے ساتھ اچھے رویوں کی اُمید رکھتے ہیں مگر لوگ باقی کرپٹ عناصر کی وجہ سے ہم کو بھی اُن ہی جیسا سمجھتی ہے ہمارے ساتھ بات تک کرنا ناگواراسمجھتے ہیں ہم سے نفرت کرتے ہیں آپ بتائیں کہ آپ مجھ سے بات کر رہے ہیں کیا آپ کو مجھ سے گھِن نہیں آ رہی یقیناََ آ رہی ہو گی مگر کیا آپ کو بہاولپور کا پی ایچ ڈی ہولڈر کانسٹیبل نظر نہیںآتا جس کو صرف اس بات پر معطل کر دیا گیا کہ وہ ملازمین کے حقوق کی بات کر رہا تھا جس کی تنخواہ روک دی گئی اُس کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا گیا اُس کے گھر کا بجلی کا میٹر کاٹ دیا گیا اُس کے بچے فیس جمع نہ کروانے پر سکول سے نکال دیے گئے یہاں تک کہ اُس کے بھائی کو بھی معطل کر دیا گیا کیونکہ وہ اُس کانسٹیبل کا بھائی تھا اور آج وہ فروٹ کی ریڑھی لگا کر اپنا گزارہ کر رہا ہے۔
کیا آپ کو وہ پولیس والا نظر نہیں آتا جو زمین پر گری ہوئی پاکستان کی جھنڈیاں اُٹھا کر اُن کو چوم رہا ہے؟کیا آپ کو وہ پولیس والے نظر نہیں آتے جو سرکارۖ کی نعتیں پڑھتے ہیں؟ کیا آپ کو وہ پولیس والا نظر نہیں آتا جو جیل میں ہونے والی بد عنوانیوں کے خلاف بات کر رہا ہے جس کی وجہ سے اُس کی نوکری جا سکتی ہے؟ کیا آپ کو وہ ڈی پی او نظر نہیں آتا جس نے اپنی نیک نیتی کی بناء پر سیاستدانوں سے جھگڑا مول لے لیا جس کی وجہ سے اُس کو صوبہ بدر کر دیا گیا؟ آپ کو وہ پولیس والا نظر نہیں آتا جو ماں سے بچھڑے اُس کے بچے کو گود میں لئے اُس کی ماں کو ڈھونڈ رہا ہے؟ آپ کو نظر آئے گا بھی تو کیسے صاحب اس میں آپ کا بھی کوئی قصور نہیں ہے ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے جیسے لوگ فٹبال کے میچ میں گول روکنے والے گولچی کے نو گول جو اُس نے روکے ہوتے ہیں اُن کو بھول جاتے ہیں مگر جو ایک گول وہ نہ روک سکے اُس ایک گول کی بناء پر اُس کے تمام روکے ہوئے گول بے کار ہو جاتے ہیںاسی طرح ایک مچھلی کی بدولت آپ کو سارا تالاب گندا نظر آتا ہے۔
قارئین کرام اُس پولیس والے کی باتیں واقعی دل کو لگیں کہ ہم لوگ ایک گندی مچھلی کی وجہ سے سارا تالاب گندا گردانتے ہیں مگر کبھی اُس گندی مچھلی کو تالاب سے نکالنے کی سعی نہیں کرتے گولچی کے نو گول روکنے پر داد تحسین نہیں دیتے مگر ایک گول نہ روکنے پر خوب لعن طعن کرتے ہیں ہمیں اپنے نظریات تبدیل کرنے ہوں گے پولیس والے سے بات کرنے سے پہلے تک پولیس والوں کے متعلق میر ا بھی خیال کچھ اچھا نہیں تھا اِدھر اُن کا نام آتا تھا اور اُدھر اُن کے لئے دلوں و دماغ سے بکاہ و کوستائیاں شروع ہو جاتی تھیں زمانہ نو عمری سے دماغ کے پروسیسر میں ایک بد دماغ، بد تمیز، رشوت خور پولیس کا ڈیٹا سیو تھا راہ چلتے ہوئے اگر کوئی پولیس مین نظر آ جاتا تو دل ہی دل میں ” آل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو” کا ورد شروع کر دیتے گویا کہ پولیس والا نا ہوا کوئی کوہ قاف کا دروغہ ہوا، یہ ساری باتیں ماضی کے فلسفے ٹھہرے جوں جوں سن بلوغت کے ادوار طے کرتے گئے بہت سے خدشات مدفون ہوتے رہے ادراک تو منزلیں طے کرنے سے ہوتے ہیں اور انسان جس معاشرت کو اپنی جنم بھومی سمجھتا ہے وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے میں کیا تھا۔
کیا ہوں اور کیا ہوں گا کبھی کنویں کے مینڈک کی طرح دائرے سے باہر نکل کر نہیں جھانکتا یہ فطرت انسانی ہے کہ انسان اپنے اجدا د سے سیکھتا ہے اور اس کے جد کی سوچ جتنی ہوتی ہے وہ اتنی ہی آبیاری پاتا ہے اور جو انسان سوچ اجد سے بے بہرہ ور ہو کر اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے شعوری حساسوں سے کام لیتا ہے پرکھتا ہے وہ کامل انسان کہلاتا ہے اور آج کے دور میں کاملات پر گامزن ہونے کا ہنر عاملات تک محدود کر دیا گیا ہے گویا کہ عاملات بھی یہ کام موکلات سے لیتے ہیں جو کہ انسانوں ہی کی طرح تیر تکے لگاتے ہیںسیدھا لگ گیا تو بلے بلے نہیں تو ستارے ساڑھ ستی کے دور سے گزر رہے ہیں نحوست کا زمانہ ہے کہ کالا بکرا دان کرنے سے ٹھیک ہو جائے گا مگر بھولا انسان عاملات کی چالاکیاں کیا جانے کہ زمانہ بُرا نہیں ہوتا بُرے ہوتے ہیں زمانے والے، جس طرح انسان کے ہاتھ و پائوں کی اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح انسان بھی برابر نہیں ہوتے کوئی بڑا یا چھوٹا اپنے اعمال ، اپنے ظرف اور حسن اخلاق سے ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر اگر انسان تقویٰ کی راہ اختیار کر لے تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے اسی طرح ہر پولیس والا اچھا یا بُرا انسان ہوتا ہے بھیڑئیے کی کھال پہننے سے بھیڑ بھیڑیا نہیں ہو جاتی اور بھیڑ کی کھال پہننے سے بھیڑیا بھیڑ نہیں ہو جاتا کیونکہ بھیڑ کی فطرت میں گھاس چرنا اور بدلے میں دودھ دینا ہے جبکہ بھیڑئیے کی فطرت خون پینا، گوشت کھانا، مکاری کرنا اور بدلے میں ہڈیاں تک چبا جانا ہے بالکل اسی طرح پولیس والوں کی وردی بدلنے سے اُس کے اندرکا بھیڑیا نہیں بدلتا اور نہ ہی وردی بدلنے سے بھیڑ بدلتی ہے جو جیسا ہے وہ ویسا ہی رہے گا ابلیس فرشتوں کا سردار رہا مگر حکم عدولی کی بناء پر فردوس سے عاق ہوا جس کا بدلہ وہ آدم زاد سے لے رہا ہے۔
میں نے ایسے پولیس والے دیکھے ہیں جو کہ گمنام سپاہی کے نام سے امر ہوئے اور ایسے بھی دیکھے جو ذلیل و رسوا ہوئے دونوں کی وردی ایک جیسی دونوں کے خون ایک جیسے فرق دونوں کی فطرت میں تضاد اس میں اُن کے آبائو اجداد کا کوئی ہاتھ نہیں کیونکہ فرعون کے گھر میں موسیٰ نے پرورش پائی اورامیر معاویہ کے گھر میں یزید نے،ہمیںجو کرپٹ عناصر ہیں اُن کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے بھیڑوں کے غول میں موجود بھیڑیوں کو نکالنا ہو گا نہ کہ تمام بھیڑوں کو جلا دینے پر اکتفاء کریں موسی کی اچھائی پر فرعون کو اچھا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی یزید کی بُرائی پرامیر معاویہ کو بُرا کہہ سکتے ہیں ہمیں کرداروں کو سمجھنا ہو گا ہمیں رویوں کو پرکھنا ہوگا ہمیں پولیس ڈیپارٹمنٹ کو بُرا نہیں کہنا ڈیپارٹمنٹ میں موجود بُرے لوگوں کو باہر نکالنا ہے ہمیں رشوت کے خلاف ، کرپشن کے خلاف آواز اُٹھانے والے دیانتدار پولیس والوں سے پیار کرنا ہے اُن کو وہ عزت دینی ہے جو ہم موٹروے پولیس والوں کو دیتے ہیں جو ہم فوج کو دیتے ہیں تاکہ اُن پولیس والوں کے حوصلے بلند ہوں جو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے عوام کی جان و مال کا تحفظ کرتے ہیں جن کا موٹو ہے کہ نفرت جرم سے ہے مجرم سے نہیں اسی طرح ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام کو نفرت ہر وردی والے سے نہیں بلکہ صرف اور صرف رشوت خوروں اور لاقانونیت کرنے والوں سے ہے اس کے ساتھ ارباب اختیار سے بھی گزارش ہے کہ خدایا پولیس کا محکمہ جن چند کرپٹ افسروں، سیاست دانوں، وڈیڑوں اور جاگیر داروں کے ہاتھوں یر غمال بنا ہوا ہے اُن عناصر کو بدلا جائے بارہ بارہ گھنٹوں کی ڈیوٹی اور پی ایچ ڈی کر کے بھی فروٹ کی ریڑھی لگانے والوں کو اُن کے معیار کے مطابق عزت والا روزگار دیا جائے۔
پروٹو کول کے نام پر پولیس کی بھاری نفری اپنے محلات سے تھانوں میں منتقل کی جائے آئے روز نئی سے نئی فورس نکالنے کی بجائے پرانی فورس کو ٹھیک کیا جائے رشوت خوروں سے محکمہ پولیس کو پاک کیا جائے ، پولیس میں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جائے، جو سیاستدان پانچ سال کے لئے منتخب ہو کر مستقل ملازمین پر رعب جماتے ہیں اُن کی رکنیت معطل کر کے تاحیات پابندی لگائی جائے تا کہ اچھے کرداروں کے حامل پولیس جوانوں کو آزادانہ اور خوف خدا کے ساتھ عوام کے ساتھ اچھے برتائو کو سامنے لایا جا سکے جس سے پولیس اور عوام میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے یوں وردی بدلنے یا پولیس فورس کو مختلف نام دینے سے محکمہ ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ صرف ارباب اختیار کی جگ ہنسائی ہو گی۔